ایران کے ایٹمی معاہدے پر امریکی دباؤ کی کوششیں
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) امریکہ نے ایران کے خلاف مختلف بے تکے بہانوں اور بے بنیاد الزامات عائد کر کے ایٹمی معاہدے کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردی ہے اور وہ روز کسی نہ کسی بہانے کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ کی درخواست پر بدھ کے روز آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کا ہنگامی اجلاس تشکیل پا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے متعلق وعدوں پر عمل کرنے کے لئے یورپی ملکوں کو دی جانے والی ساٹھ روز کی مہلت کے اختتام اپنے رضاکارانہ وعدوں سے بتدریج پسپائی کے دوسرے اقدام کے طور پر اعلان کیا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کا اس کا عمل اب تین اعشاریہ چھے سات فیصد تک محدود نہیں رہے گا اور اسے بڑھا دیا جائے گا۔
ایران نے اسی طرح خبردار کیا کہ ایٹمی معاہدے کے فریق ملکوں نے اگر اپنے وعدوں پر اب بھی عمل نہیں کیا تو ساٹھ روز کے بعد تیسرا قدم اُٹھایا جائے گا جو اور بھی زیادہ سخت ہو گا۔
یورپ کی جانب سے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے کے ردعمل میں ایران کی جانب سے پہلا قدم یکم جولائی کو اُٹھایا گیا اور اعلان کیا گیا کہ افزودہ یورینیم کی مقدار تین سو کلو سے تجاوز کر گئی ہے۔
ایران کی جانب سے اس قسم کے تمام تر عمل میں لائے جانے والے اقدامات یورپی ملکوں کی جانب سے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے پر ردعمل کے مترادف ہیں جس کا مقصد ایٹمی معاہدے کو بچانا ہے جبکہ ایران کی جانب سے ردعمل کے طور پر جتنے اقدامات کا بھی اعلان کیا گیا ہے وہ ایٹمی معاہدے میں موجود شقوں کی بنیاد پر ہے۔
ایران کی جانب سے ان اقدامات کو ایٹمی معاہدے کی چھبیسویں اور چھتیسویں شق میں بیان کیا گیا ہے جبکہ ایران کے یہ اقدامات نہ تو ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے مترادف ہیں اور نہ ہی اس بین الاقوامی معاہدے کی کوئی خلاف ورزی ہے۔
ایران کی جانب سے یہ اقدامات ایسی حالت میں عمل میں لائے گئے ہیں کہ ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نے ایٹمی معاہدہ طے پانے کے بعد کی اپنی پندرہ رپورٹوں میں ہمیشہ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے پر کاربند ہے اور اس کی ایٹمی سرگرمیوں میں کسی بھی طرح کی خلاف ورزی کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے اور آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو تمام ضروریاتی عمل تک دسترسی حاصل ہے۔
ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا امانو نے اس سلسلے میں پیر کے روز ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق بھی کر دی ہے کہ ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کا عمل اب تین اعشاریہ چھے سات فیصد تک محدود نہیں ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کا ہنگامی اجلاس تشکیل دیئے جانے کے بارے میں امریکہ کی درخواست کا مقصد ایٹمی معاہدے سے متعلق غیر مربوط مطالبات کا مسئلہ پیش کرنے کے لئے سیاسی ماحول تیار کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کا ہنگامی اجلاس تشکیل دیئے جانے کے بارے میں امریکہ کی درخواست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ بورڈ آف گورنرز کی ذمہ داری صرف سیف گارڈ سے متعلق مسائل کا جائزہ لینا ہے اور ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کو تین اعشاریہ چھے سات فیصد تک محدود نہ رکھتے ہوئے اس کی سطح میں اضافہ کئے جانے کے بارے میں ایران کا اقدام، ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ہے اور اس کا پروٹوکول اور سیف گارڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے