ایران امریکہ ٹکراو، کیوں اور کب تک؟
تحریر: مہدی فضائلی
خارجہ پالیسی کے میدان میں انقلاب اسلامی ایران کو درپیش اہم ترین چیلنج جس کے اثرات ملک کی اندرونی سیاست میں بھی دکھائی دیتے ہیں، امریکہ کا مسئلہ ہے۔ یہ چیلنج امام خمینی رح کی انقلابی تحریک کے آغاز سے ہی معرض وجود میں آ گیا تھا اور آج تک جاری ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان ٹکراو پانچ مختلف سطحوں پر پایا جاتا ہے جو یہ ہیں: 1)۔ عقائد کی سطح، 2)۔ مبادیات کی سطح، 3)۔ تاریخ کی سطح، 4)، تجربات کی سطح اور 5)۔ سیاست اور سفارتکاری کی سطح۔ تحریر حاضر میں ان سطور کا تفصیلی جائزہ لینے کی گنجائش موجود نہیں البتہ ہر سطح کا مختصر طور پر جائزہ لیا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں اہم نکات بیان کئے جا سکتے ہیں۔
1)۔ عقائد کی سطح: قرآن کریم میں سورہ کافرون سمیت کئی مقامات پر بیان شدہ آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اسلام اور کفر میں ہر گز ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ مختلف آیات کریمہ میں "طاغوت سے کفر” کو خدا پر ایمان پر مقدم جانا گیا ہے جبکہ اسے خداوند متعال کی مضبوط رسی تھامنے کی لازمی شرط بھی قرار دیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیہ 256 میں ارشاد باری تعالی ہے:
۔۔۔۔ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطّٰاغُوتِ وَ يُؤْمِنْ بِاللّٰهِ فَقَدِ اِسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ اَلْوُثْقىٰ لاَ اِنْفِصٰامَ لَهٰا
ترجمہ: پس جو شخص طاغوت سے کفر اختیار کرے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں۔
2)۔ مبادیات کی سطح: استکباری نظام کے مفادات نہ صرف توحیدی نظام بلکہ ہر ایسے نظام سے ٹکراتے ہیں جو خودمختار رہ کر اپنے مفادات کے تحفظ کے درپے ہوتا ہے۔ استکبار، جس کا کامل مصداق آج امریکہ کی صورت میں موجود ہے، اپنی جارحانہ خو اور سب کچھ ہڑپ کر جانے کی خواہش کے ناطے جب بھی کسی ملک کے مفادات کو اپنے مفادات سے ٹکراتا محسوس کرتا ہے تو چند کام انجام دیتا ہے۔ اگر تو وہ ملک اس کا مطیع اور تابعدار ہو تو اس پر حکم چلا کر اپنے مفادات حاصل کرتا رہتا ہے۔ اور اگر وہ ملک خودمختار ہو اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مناسب حد تک طاقت سے بھی برخوردار ہو تو ایسی صورت میں استکباری نظام اس کے ساتھ مقابلہ بازی شروع کر دیتا ہے اور اس پر دباو ڈال کر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ مخالف ملک خودمختاری کی خواہش تو رکھتا ہو لیکن اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے کافی حد تک طاقت سے برخوردار نہ ہو۔ ایسی صورت میں استکباری طاقت اسے ملک کو ڈرا دھمکا کر اور لالچ دے کر اپنے جائز مفادات سے محروم کر دیتی ہے اور اپنے ناجائز مفادات کا حصول جاری رکھتی ہے۔ اس مختصر جائزے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مختلف پہلووں میں طاقت کا حصول اپنی خودمختاری کے تحفظ کی بنیادی شرط ہے، چاہے یہ خودمختار نظام ایک توحیدی نظام ہو یا کوئی سیکولر نظام ہو۔
3)۔ تاریخی سطح: اس سطح کا جائزہ لینے کیلئے انقلاب سے پہلے ایران کی تاریخ نیز دیگر ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کافی ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے ساتھ امریکہ کے اچھے تعلقات کے باوجود امریکی حکام نے بغاوت کے ذریعے انہیں حکومت سے سرنگوں کر دیا۔
4)۔ تجربات کی سطح: اگر ہم ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد گذشتہ چار عشروں کے دوران امریکہ سے تعلقات کے بارے میں اپنے تجربات کا جائزہ لیں تو بہت اچھے نتائج حاصل کر سکیں گے۔ ایران کے اندر بعض حلقے اس غلط تصور کا شکار ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ایران کی دشمنی تہران میں امریکی سفارتخانے پر انقلابی طلاب کے قبضے سے شروع ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکہ نے عراق کے صدر صدام حسین کو ایران پر فوجی چڑھائی کیلئے تہران میں اپنے سفارتخانے پر قبضے سے پہلے سبز جھنڈی دکھائی تھی۔ اسی طرح امریکی سینٹ میں انقلابی حکومت کے خلاف شدید الفاظ میں مخالفت پر مبنی قرارداد بھی اس واقعہ سے پہلے منظور کی گئی تھی۔ ایران میں علیحدگی پسند گروہوں کی حمایت، ایران عراق جنگ کے دوران عراق کی بھرپور فوجی، مالی اور انٹیلی جنس مدد وغیرہ سب دشمنی پر مبنی اقدامات ہیں۔
5)۔ سیاسی اور سفارتی سطح: بعض حلقے گمان کرتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات ملک میں اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ دوسری طرف ان کی نظر میں ایسی صورت میں ملک کو درپیش خطرات اور چیلنجز میں بھی کمی آئے گی۔ اس بات کا جائزہ لینے کیلئے ایسے ممالک پر توجہ دینا کافی ہے جو ایک طویل عرصے سے امریکہ سے دوستانہ تعلقات قائم کئے ہوئے تھے لیکن یہ دوستی ان کے کسی کام نہ آئی۔ مثال کے طور پر مصر، عراق اور افغانستان پر ایک نظر ڈالیں۔ یہ ممالک گذشتہ لمبے عرصے سے امریکہ سے قریبی تعلقات استوار کئے ہوئے تھے لیکن نہ ہی اقتصادی ترقی واقع ہوئی اور نہ ہی کسی اور میدان میں یہ ممالک طاقت بن کر سامنے آئے۔
امریکہ سے دوستی اور تابعداری کی بہترین مثال سعودی عرب نے قائم کی ہے جبکہ امریکہ کے خلاف مزاحمت اور استقامت کا راستہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اختیار کیا ہے۔ ان دونوں ممالک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لے کر جانا جا سکتا ہے کہ کون سا راستہ ایک ملک کے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے درست ہے اور کون سا راستہ غلط ہے۔ علاقائی سطح سے لے کر عالمی سطح تک ایران کے سیاسی اثرورسوخ کو بھی سامنے رکھیں اور سعودی عرب کے سیاسی اثرورسوخ کا بھی جائزہ لے لیں۔ اسی طرح اقتصادی، فوجی، تعلیمی و دیگر شعبوں میں بھی دونوں ممالک کی ترقی کو سامنے رکھیں۔ ایران نے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی خودمختاری برقرار رکھ کر اپنے قومی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا ہے بلکہ گذشتہ چالیس برسوں میں مختلف شعبوں میں بھی بھرپور ترقی کی ہے۔