
ایران امریکہ مذاکرات اور عرب ممالک کا ثالثی کردار
شیعہ نیوز:ایران اور امریکہ کے درمیان جیوپولیٹکل کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک نے عملی طور پر کشیدگی کو کم کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ حکمت عملی نہ صرف علاقائی عدم استحکام کے نتائج کے بارے میں ان ممالک کی گہری تشویش کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ان کے طویل مدتی اقتصادی مفادات سے بھی جڑی ہوئی ہے، خاص طور پر سعودی عرب کے ویژن 2030 اور متحدہ عرب امارات کے میگا پراجیکٹس جیسے ترقیاتی منصوبوں کے تناظر میں یہ پالیسی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیج فارس کے ممالک خطے میں کشیدگی کے انتظام میں اہم کھلاڑی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ثالثی کی اہم وجوہات؛ معیشت، سکیورٹی، اور تاریخ کو دہرانے سے گریز
ایران-امریکہ بحران میں عرب خلیجی ممالک کے ثالثی کردار کا تین اہم پہلووں سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے: پہلا، ان ممالک کے بلند مدت اقتصادی منصوبوں کی حفاظت کی ضرورت، جو علاقائی کشیدگی بڑھنے کی صورت میں خطرے سے دوچار ہوں گے، مثال کے طور پر، سعودی عرب نے وژن 2030 کے نفاذ کو اپنی ملکی اور بین الاقوامی پیش رفت کا محور قرار دیا ہے، اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ جنگ یا وسیع پیمانے پر عدم استحکام غیر ملکی سرمایہ کاری اور تیل کے شعبوں کی ترقی میں خلل ڈال سکتا ہے۔ یہی خدشہ متحدہ عرب امارات میں بھی پایا جاتا ہے۔ جہاں دبئی علاقائی تجارتی مرکز کے طور پر ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات سے ہمیشہ مستفید ہوا ہے۔
دوسرا: ماضی کے مذاکرات میں غفلت سے تاریخی سبق؛
2015 میں جے سی پی او اے کے عمل سے باہر رہنے اور بائیڈن کے دور میں امریکہ کی طرف سے مشاورت کی کمی نے ان ممالک کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ مذاکرات کی میز پر فعال موجودگی ان کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔
تیسرا: ان ممالک کی خارجہ پالیسی میں نظریاتی نقطہ نظر سے عملیت پسندی کی طرف مثالی تبدیلی کا سفر ہے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب، جو پہلے ایران کے خلاف محاذ آرائی کا رویہ رکھتا تھا، نے اب کشیدگی کو کم کرنے اور عالمی مساوات میں ایک موثر درمیانی طاقت بننے کو ترجیح دی ہے۔
سعودی عرب؛ محاذ آرائی سے بامقصد تعامل تک
ریاض کسی زمانے میں خطے میں ایران مخالف محاذ کی قیادت کرتا تھا، لیکن اب اس نے 2023 میں تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرکے اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کیا ہے۔ یہ تبدیلی ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے جو اقتصادی ترقی کو خارجہ پالیسی کے بنیادی محرک کے طور پر دیکھتی ہے۔ سعودی عرب نے روس، یوکرین اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی ہے، وہ ایران کے معاملے میں بھی ایسا ہی کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم، ریاض کو چیلنج کا سامنا ہے، کیونکہ واشنگٹن سے اس کی تاریخی قربت، تہران کو اس کی غیر جانبداری پر مشکوک بنا سکتی ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب ایک قابل اعتماد ثالث کے طور پر اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
قطر؛ کثیر الجہتی سفارت کاری اور بین الاقوامی سرمایہ کاری
قطر، بین الاقوامی تعلقات کے پیچیدہ منظرنامے میں طالبان-امریکہ یا حماس-اسرائیل مذاکرات جیسے امور کی میزبانی کے کامیاب تجربے پر انحصار کرتے ہوئے، خود کو ثالثی میں ایک بے مثال کھلاڑی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
دوحہ نے اپنے پڑوسیوں کی طرف سے 2017 کی ناکہ بندی کے بحران کے دوران تہران کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے دباؤ کے خلاف بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کیا، وہ اب اس فیصلے کو سیاسی طور پر استعمال کر رہا ہے۔ حالیہ ایران امریکہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں قطر کا کردار اس حکمت عملی کی واضح مثال ہے۔
تہران کے اعتماد کو برقرار رکھتے ہوئے دوحہ خطے میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ رکھنے کے لئے ایک منفرد پوزیشن میں ہے۔
متحدہ عرب امارات؛ معاشی عملیت پسندی اور بالواسطہ کردار
متحدہ عرب امارات نے سیاسی کشیدگی کے باوجود خصوصاً دبئی کے ذریعے ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔ یہ ملک، جو دسیوں ہزار ایرانی شہریوں اور اہم تجارتی شریانوں کی میزبانی کرتا ہے، عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انور قرقاش کی طرف سے ایرانی قیادت کو ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کی ترسیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابوظہبی، واشنگٹن کے ساتھ اپنے سکیورٹی اتحاد کے باوجود، تہران کے ساتھ رابطے کا راستہ کھلا رکھنے کے لئے تیار ہے۔
آبنائے ہرمز میں کشیدگی کے خطرے کو سمجھتے ہوئے، متحدہ عرب امارات تناو کو کم کرنے کے لیے سفارت کاری اور نجی مذاکرات کا راستہ استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
عمان؛ خاموش سفارت کاری اور سلطان قابوس کی میراث کا امین
سب سے اہم اور پیچیدہ کردار سلطنت عمان نے ادا کیا ہے۔ مسقط، سلطان قابوس کی سفارتی میراث اور تنازعات کے حل کے منفرد انداز پر انحصار کرتے ہوئے، تہران اور واشنگٹن کے درمیان سب سے قابل اعتماد ثالث کے طور پر جانا جاتا ہے۔
عمان کا جیوپولیٹکل جغرافیہ ایک طرف ایران سے اس کی قربت اور دوسری طرف مغرب کے ساتھ سیکورٹی تعلقات نے اس ملک کو ایک خاص اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ عمان کا آئندہ مذاکرات کے میزبان کے طور پر انتخاب حادثاتی نہیں ہے، یہ ملک فریقین کے درمیان اہم پیغامات کی ترسیل کا قابل اعتماد چینل ہے۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ مسقط بغیر کسی تعصب اور دباو کے فریقین کو پیغامات پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس مہار کا مظاہرہ اپریل 2023 میں انصار اللہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے سعودی-عمانی وفد کی صنعاء آمد کے وقت بھی ہوا تھا۔
سلطنت عمان نے تہران کے ساتھ اعلی درجے کے تعلقات کو برقرار رکھ کر ایران کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے، جو بعض اوقات سیکورٹی تعاون تک بھی جاتی ہے۔ یہ کسی بھی ممکنہ معاہدے کے نفاذ کی ضمانت کے طور پر واشنگٹن کے لئے بہت ضروری ہے۔ آئندہ مذاکرات کے دوران، مسقط اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے فریقین کی تکنیکی تجاویز کو آپریشنل منصوبوں میں شامل کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ایران کے خلاف جارحانہ اتحاد میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے عمان کو تہران نے ایک غیر جانبدار کردار کے طور پر قبول کیا ہے۔
خلیج فارس؛ کثیر القطبی سفارت کاری کے نئے میدان کے طور پر
خلیج فارس کے ممالک کی جانب سے ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی کوششیں محض ایک قلیل مدتی تدبیر نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی منظرنامے میں ان ممالک کے کردار میں تبدیلی کا حصہ ہیں۔ دریں اثنا، عمان، روایتی سفارت کاری، متوازن تعلقات، اور غیر متنازعہ سیاسی کلچر کے منفرد امتزاج کے ساتھ، مشرق وسطیٰ میں موثر "نرم طاقت” کے نمونے کے طور پر ابھرا ہے۔ اس ملک کی ثالثی کی کامیابی یا ناکامی نہ صرف ایران اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل کا تعین کرے گی بلکہ خلیج فارس سے متصل عرب ممالک کی نئی جیو پولیٹیکل پوزیشن بھی طے کرے گی۔