ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا اہم دورہ پاکستان
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے دس اور گیارہ نومبر 2020ء کو پاکستان کا جو دورہ کیا، گذشتہ اڑھائی برسوں کے دوران یہ ان کا چوتھا دورہ پاکستان تھا۔ البتہ اس مرتبہ ان کے دورے کی ٹائمنگ بہت زیادہ اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے۔ دھاندلی سے بھرپور امریکی صدارتی الیکشن کے متنازعہ نتائج کے بعد متعدد ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت نے جوزف بائیڈن کو نو منتخب امریکی صدر کی حیثیت سے مبارکباد دے کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست تسلیم کرنے کا تاثر دے دیا ہے۔ جواد ظریف صاحب کا دورہ اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ڈیموکریٹک جو بائیڈن تکلفاً جمہوریت اور حقوق انسانی کا راگ الاپ کر امریکا کے نسل پرستانہ چہرے کو چھپانے کی کوشش کریں گے اور اس ہدف کے حصول کے لیے وہ چین، پاکستان، افغانستان، ایران، روس سمیت ہر ملک پر دباؤ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ یعنی پورا زایونسٹ امریکی سعودی اماراتی بلاک اب بائیڈن سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ محمد جواد ظریف کے دورے کی ٹائمنگ کی وجہ سے اس کی اہمیت زیادہ ہے تو اس کا ایک اور سبب سعودی و اماراتی بلیک میلنگ بھی ہے۔ سعودی عرب نے ہر ممکن کوشش کرکے پاکستان کو ترکی، قطر، ایران اور ملائیشیاء سمیت ہر اس ملک سے دور کرنے کے جتن کیے ہیں کہ جن کا پولیٹیکل کلاؤٹ سعودی عرب اور امارات سے بدرجہا زیادہ مستحکم اور بہتر ہے۔ خاص طور پر ایسے مسلم ممالک کہ جن کا پبلک امیج زیادہ اچھا ہے اور ان میں ایران سرفہرست ہے، کیونکہ اس نے فلسطین اور کشمیر کے ایشوز پر عرب و اسلامی دنیا کے عوام کی ترجمانی کی ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو سود پر کچھ رقم ادھار دے رکھی ہے۔ یعنی قرضہ۔ اب سعودی عرب پاکستان سے دو بلین ڈالر کی واپسی کا تقاضا کر رہا ہے۔ پاکستان نے ادائیگی کے لیے مزید ایک سال کی مہلت مانگی، لیکن ذرائع ابلاغ نے جو رپورٹنگ کی، اس سے لگتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سود پر دیئے گئے قرض کی اس رقم کی واپسی چاہتا ہے۔
گو کہ متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو سود پر قرضہ دے رکھا ہے، لیکن تاحال اس کی جانب سے ایسے کسی مطالبے کو پاکستانی میڈیا نے رپورٹ نہیں کیا۔ البتہ امارات نے پاکستانی سرمایہ کاروں، تاجروں اور ملازمین کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ کورونا وائرس کو بہانہ بنا کر پہلے مرحلے میں ہزاروں ملازمین کو برطرف کرکے پاکستان بھجوا دیا۔ اب پورے متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی پکڑ دھکڑ چل رہی ہے۔ بہت سے بڑے پاکستانی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو راتوں رات امارات سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یعنی ان کے اربوں روپے امارات کے ناجائز قبضے میں ہیں۔ بہت سے پاکستانی شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے کماؤ پوت کو امارات نے جبری طور پر گم کر دیا ہے۔ بغیر کسی قانونی کارروائی کے امارات میں قانونی طور پر رہائش پذیر پاکستانیوں کو ان کے گھروں، دفاتر اور محلوں سے اٹھا کر گم کر دیا ہے۔ اور اس کی ٹائمنگ بھی اہم ہے کہ امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ رسمی طور پر مکمل تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ اس لیے زایونسٹ لابی کو خوش کرنے کے لیے پاکستانیوں پر سختیاں کی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب بھی امریکی اسٹبلشمنٹ کو یقین دلاچکا ہے کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے گا۔
اس تناظر میں ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان زیادہ اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد خلیجی عرب ممالک سے بڑے پیمانے پر پاکستانیوں کی بے روزگاری اور اب پکڑ دھکڑ کا خمیازہ پاکستان نے من حیث القوم ہی بھگتنا ہے۔ اس کے پاکستانی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کئی ہزار خاندانوں کے لیے یہ اقتصادی نسل کشی کے مترادف ہے۔ ایسے وقت پاکستان کو اپنے ذرائع آمدنی میں اضافے کی شدید ضرورت ہے۔ فوری طور پر پاکستان اس خسارے یا کمی کو ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے ذریعے پورا کرسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے جب ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بدھ کے روز اسلام آباد میں ملاقات کی تو عمران خان نے دوطرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھی ان سے ملاقات میں تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون بڑھانے کی بات کی۔
پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ایرانی وزیر خارجہ کی ملاقات میں سرحدی مارکیٹ کے قیام کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئی۔ اگر اقتصادی تعلقات پر ہونے والی ان باتوں پر جلدی سے عمل کرلیا جائے تو پاکستان اور ایران دونوں ہی زایونسٹ امریکی بلاک کی بلیک میلنگ اور منافقانہ شرانگیزی کو باآسانی ناکام بناسکتے ہیں۔ خاص طور پر ریاست پاکستان کی حیثیت زیادہ مستحکم ہوجائے گی، کیونکہ ریاست پاکستان کا انحصار امریکی بلاک پر یا خلیجی عرب ممالک پر زیادہ رہا ہے اور اب زمینی حقائق میں ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوچکیں ہیں کہ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان پر بھارت کو فوقیت دیتا آرہا ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب، امارات اور بحرین نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کرنے والی مودی سرکار کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات سے نواز دیا ہے۔ او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو مدعو کرکے پاکستان اور کشمیریوں سے خیانت کرچکے ہیں۔ ایسے ممالک کو ایران پر ترجیح دینا، سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ پاکستان کے عوام کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے کشمیر کاز کی ٹھوس حمایت کو بہت سراہا۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی ایران کی جانب سے ثابت قدمی سے مظلوم کشمیریوں کی حمایت کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں تھی اور ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد کی ایرانی قیادت نے کشمیر کے ایشو پر ہمیشہ مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی حمایت کی۔ گو کہ اس پالیسی کی وجہ سے بھارت ایران سے ناراض بھی رہتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس دن بھارت کے وزیر دفاع نے روس میں منعقدہ اجلاس جاتے ہوئے ایران کا دورہ کیا، تب بھی تہران میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرہ ہوا تھا۔ اس نوعیت کی حمایت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں نے آج تک نہیں کی ہے۔ یہ زایونسٹ بھارتی نواز خلیجی عرب شیوخ و شاہ تو کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کے احتجاج کو ہی کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان ممالک میں کشمیر کے حق میں ایک ریلی تک نہیں نکلی بلکہ بحرین میں جب ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو بحرین پویس نے انکو گرفتار کر لیا تھا۔ حالانکہ ان ممالک پر امریکا نے یا اقوام متحدہ نے ایسی سخت پابندیاں نہیں لگائیں جیسی کہ ایران پر نافذ رہیں۔ امریکی پابندیاں تو تاحال ایران پر لاگو ہیں اور بھارت کے ساتھ ایران کے تجارتی تعلقات ہونے کے باوجود ایران نے اسلامی کاز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی جانب سے فرانسیسی جریدے کے گستاخانہ اور اہانت آمیز کارٹون اور اسلامو فوبیا کی حمایت کے خلاف ایران اور پاکستان ایک پیج پر تھے۔ اس موضوع پر ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان میں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں دونوں ملکوں متفق تھے۔ افغانستان سمیت پورے خطے کی سکیورٹی صورتحال پر بھی گفتگو ہوئی۔ افغانستان کے امن کو خطے کے لیے اہم قرار دیا گیا۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں جواد ظریف صاحب کا پرتپاک استقبال ہوا۔ گارڈ آف آنر کی تقریب کے بعد انہوں نے پاکستان کے عظیم شہداء کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر عقیدت کا اظہار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے علاقائی سلامتی کے لیے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ خاص طور پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے برملا اس حقیقت کو بیان کیا کہ پاکستان ایران کے بڑھتا ہوا تعاون خطے کے امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ملکوں نے سرحدی سکیورٹی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ علاقائی ممالک کو ایک دوسرے سے ملانے کے لیے دونوں ملکوں نے افغانستان مفاہمتی عمل اور افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنانے پر تاکید کی۔ دونوں ملکوں کا اتفاق اس نکتے پر ہے کہ مسئلہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
پاکستان ایران تعلقات میں فوری بہتری دونوں ملکوں اور علاقائی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ امریکی بلاک اور امریکی اتحادیوں کے آسرے پر پاکستان نے ستر برس ضائع کر دیئے۔ ملک دو لخت ہوگیا لیکن ریاستی اداروں میں موجود امریکی بلاک اور اس کے اتحادیوں کے وفاداروں نے پاکستان کو امریکی بلاک کے ناجائز مفادات پر قربان کرنے کا سلسلہ ترک نہ کیا۔ یاد رہے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک منصوبہ کی مخالفت امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اعلانیہ پالیسی ہے اور ٹرمپ کے جانے یا بائیڈن کے آنے سے یہ پالیسی بدلنے والی نہیں۔ جب نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد امریکا کے دورے پر گئے تو اس وقت جوزف بائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے۔ اس وقت پاکستانی حکومت نے ایڑی چوٹی کازور لگا دیا کہ صدر باراک اوبامہ سی پیک کی حمایت میں ایک جملہ کہہ دیں، لیکن اوبامہ نے حمایت نہیں کی۔ جوبائیڈن نے تو علی اعلان چائنا کے راہداری منصوبے کی مخالفت کر دی ہے۔ سعودی عرب اور امارات بھارت کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے ہیں۔
ریاست پاکستان کے پاس اب کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔ امریکی بلاک یا امریکا کے خلیجی عرب اتحادیوں کے ساتھ ماضی جیسے تعلقات کے لیے ریاست پاکستان کو نظریہ پاکستان، کشمیر اور اپنی قومی شناخت کو قربان کرنا ہوگا۔ حتیٰ کہ اب سعودی عرب پاکستان کے مخصوص دینی رواداری اور محبت و اخوت اور بین المسالک ہم آہنگی والے اس اچھے ماحول کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ اگر نظریہ پاکستان، بانیان پاکستان کی اسلام دوستی، فلسطین دوستی، کشمیر دوستی اور بین المسالک ہم آہنگی کو سعودی عرب کی خوشنودی کے لیے قربان کردیا جائے تو پھر بحیثیت ایک نیشن اسٹیٹ پاکستان کے پاس بچے گا کیا!؟ یہ سعودی ڈکٹیشن مسترد کرنے کا وقت ہے۔ چین اور ایران کے ساتھ ملکر اس خطے کے ممالک کو ایک دوسرے سے بیلٹ روڈ منصوبے کے ذریعے ملانے کا وقت ہے اور اس کے لیے ریاست پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں اور قیادت کو بڑے فیصلے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا دورہ پاکستان اس ضمن میں ایک گاڈ سینٹ اپرچونٹی کے مترادف تھا۔ یہی وقت ہے کہ دوست نما دشمنوں کی ڈکٹیشن، دھمکیوں اور بلیک میلنگ کو جوتے کی نوک پر رکھ کر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مکمل آزادی اور خود مختاری سے ہمکنار کیا جائے۔ ایران کے ساتھ اقتصادی اور فوجی تعلقات میں توسیع پاکستان اور ایران دونوں کے لیے عالمی و سیاسی منظرنامے میں ون ون سچویشن ہوگی۔
تحریر: محمد سلمان مہدی