مقالہ جات

ایران کی تنہا مزاحمت نے خطے کو تحفظ فراہم کیا، اسرائیل اگلے حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے، عبدالباری عطوان

شیعہ نیوز: عبدالباری عطوان نے کہا کہ ایران نے نہ صرف خود کو اسرائیل کی جارحیت سے بچایا بلکہ پورے عرب خطے کو ایک مضبوط حفاظتی ڈھال مہیا کی، اسرائیل کی شکست کے بعد خطے کے دیگر ممالک، خاص طور پر مصر بھی اس کشیدگی کے دائرے میں آسکتے ہیں۔

عرب تجزیہ کار اور روزنامہ رأی الیوم کے مدیر عبدالباری عطوان نے ایران، امریکہ اور اسرائیل کے مابین 12 روزہ حالیہ جنگ کو خطے کی تاریخ کا اہم موڑ قرار دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کو دی گئی خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام نے اپنے اتحاد، قیادت سے وفاداری اور دفاعی استقامت سے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔

عطوان کے مطابق، اسرائیل اور امریکہ نے اپنی روایتی حکمت عملی کے تحت ایران پر اچانک حملے اور اہم شخصیات کے قتل کے ذریعے قوم کو مایوسی اور انتشار میں دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن ایرانی عوام نے جس یکجہتی، ہمت اور عزم کے ساتھ جواب دیا، اس نے دشمن کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جنگ ایران کے لیے صرف ایک عسکری مقابلہ نہیں تھی، بلکہ ایک سیاسی، قومی اور نظریاتی محاذ آرائی بھی تھی، جس میں ایران نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اس کا دفاع صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم کرتی ہے۔

ممتاز عرب تجزیہ کار نے کہا کہ اسرائیل نے یہ گمان کیا تھا کہ اچانک حملوں اور ایران کی فوجی و دفاعی شخصیات کو نشانہ بنا کر وہ ایرانی نظام میں انتشار اور عوام میں مایوسی پیدا کر دے گا، لیکن رہبر معظم انقلاب اسلامی کی بروقت تدبیر اور شہید کمانڈروں کے فوری اور مؤثر متبادل نے اسرائیل کی یہ سازش ناکام بنا دی۔ اسرائیل کو اس قدر تیز رفتار اور مؤثر ردعمل کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ صرف چند گھنٹوں میں ایران نے اسرائیل کو میزائلوں کا نشانہ بنایا، اور صہیونی حکومت اپنی تاریخ میں پہلی بار مکمل دفاعی پوزیشن میں چلی گئی۔ ایران نے دشمن کی جانب سے صدمہ اور خوف پیدا کرنے کی حکمت عملی کو نہایت ہوشیاری سے ناکام بنایا۔

یہ بھی پڑھیں : یمنی استقامت نے صہیونی عزائم چکنا چور کر دیے

عبدالباری عطوان نے مزید کہا کہ اسرائیل اس امید پر تھا کہ ایرانی عوام اس جنگ میں حکومت اور نظام کے خلاف کھڑے ہوں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ بلکہ ایرانی قوم نے متحد ہو کر رہبر اور انقلاب اسلامی کا ساتھ دیا اور دشمن کا خطرناک منصوبہ ناکام بنا دیا۔ یہی وہ پہلو تھا جس نے اسرائیلی قیادت کو سخت حیرت میں مبتلا کر دیا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ اسرائیل اور امریکہ کا ارادہ تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، لیکن جدید ترین اور تباہ کن ہتھیاروں کے باوجود وہ اپنے اس ہدف میں ناکام رہے۔

عطوان نے بتایا کہ ایران نے ابتدائی حملوں میں پرانے بیلسٹک میزائل استعمال کیے تاکہ اسرائیلی دفاعی نظام کا تجزیہ کیا جاسکے۔ بعد ازاں جدید میزائل جیسے سجیل، فتاح اور خیبر استعمال کیے گئے، جو آواز سے کئی گنا تیز رفتار اور کلسٹر وارہیڈز سے لیس تھے، جن کی دھماکہ خیز قوت ڈیڑھ ٹن سے بھی زیادہ تھی۔ یہی وہ میزائل تھے جنہوں نے تل ابیب، حیفا، بئر السبع اور یہاں تک کہ عالمی سطح پر معروف وائزمین انسٹی ٹیوٹ اور اسرائیلی فوج کے آپریشن رومز کو بھی نشانہ بنایا۔ اسرائیل کے چار بڑے دفاعی نظام، امریکی ساختہ "تھاڈ”، اسرائیلی "حیتس”، "آئرن ڈوم” اور "ڈیوڈ سلنگز” سب کے سب ایران کے میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہے، جس کے نتیجے میں تل ابیب میں بے مثال تباہی ہوئی۔ حیفا اور بئر السبع میں بھی وسیع پیمانے پر فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ بن گوریان ایئرپورٹ مکمل طور پر بند کر دیا گیا، اور اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار 7 ملین سے زیادہ شہری مسلسل کئی دن تک پناہ گاہوں اور زیر زمین سرنگوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔ صہیونی حکومت کی 76 سالہ تاریخ میں ایسی بے بسی اور خاموشی کبھی نہیں دیکھی گئی۔

آخر میں عطوان نے کہا کہ نتانیاہو نے ایرانی عوام کو براہ راست خطاب کر کے یہ دعوی کیا تھا کہ ہم تمہارے دوست ہیں، تمہیں اس نظام سے نجات دلا کر تمہاری حمایت کریں گے۔ جب نتن یاہو نے فتح کا دعوی کیا تو دنیا بھر سے کسی ایک ملک یا رہنما نے مبارکباد تک نہ دی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں بری طرح شکست کھا چکا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید حیران کن نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ ایرانی قوم عظیم تہذیبی ورثے کی مالک ہے، اس کی تاریخ آٹھ سے نو ہزار سال پر محیط ہے۔ مغربی طاقتیں ایران کی گہرائی اور تہذیبی شعور کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ یہ قوم اختلاف کے باوجود اپنی قیادت سے خیانت نہیں کرتی۔ ایرانی عوام نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ دشمن کے سامنے صف آرا ہیں، اور جب بات وطن، قیادت اور انقلاب کی ہو، تو سب اختلافات ایک طرف رکھ دیے جاتے ہیں۔ یہی وہ بات تھی جس نے اسرائیل اور امریکہ کو گہری حیرت میں مبتلا کر دیا۔

عطوان نے زور دے کر کہا کہ یہ جنگ ایران کی ایک بڑی فتح اور اسرائیل کی کھلی شکست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے نہ صرف امریکہ جیسے عالمی طاقت سے بلکہ اس کے زیر اثر صہیونی حکومت سے بھی مؤثر انداز میں مقابلہ کیا اور واضح پیغام دیا کہ وہ ہر سطح پر تیار ہے۔ اسرائیل کو عادت ہے کہ وہ عرب ممالک کے خلاف جنگیں چند گھنٹوں میں ختم کر دیتا ہے، لیکن اس بار اسے 12 دن کی طویل اور سخت جنگ کا سامنا کرنا پڑا، جس میں وہ ناکام ہوا اور بالآخر امریکہ سے جنگ بندی کی درخواست کی۔

عطوان نے کہا کہ ایران نے نہ صرف اسرائیل بلکہ خلیج میں موجود امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا، جن میں قطر کا "العدید” بیس سرفہرست ہے۔ امریکہ کے دیگر فوجی مراکز بھی مستقبل میں اسی انجام سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کا دعوی کیا اگر یہ مراکز واقعی تباہ ہوتے تو پورے خطے میں تابکاری پھیل جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کا 60 فیصد افزودہ یورینیم بدستور محفوظ ہے اور جوہری تنصیبات کو کوئی سنجیدہ نقصان نہیں پہنچا۔

ایران نے اسرائیل اور امریکہ سمیت تمام مغربی طاقتوں کو یہ باور کرایا کہ وہ غلط دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ایران نہ اسرائیل کی طرح ہے، نہ ان ممالک کی طرح جو ہتھیار درآمد کرتے ہیں۔ ایران کی میزائل اور ڈرون صنعت مقامی سطح پر اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ شاید روس سے بھی آگے نکل چکی ہو۔ ایران کا حالیہ حملہ صرف اسرائیل کے خلاف ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ پوری دنیا، خاص طور پر مغربی طاقتوں کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ ایران اب ایک خودمختار، مضبوط اور فیصلہ کن طاقت ہے۔ یہ جنگ نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کے لیے بھی شدید جھٹکا تھی، اور آئندہ ممکنہ جنگ کے لیے دونوں ملکوں کو اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانا پڑے گی۔

عطوان نے واضح کیا کہ ایران نے اس جنگ میں نہ صرف خود کو بچایا بلکہ تمام عرب ممالک کو بھی ایک قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ ایران نے کسی بیرونی طاقت سے مدد طلب نہیں کی، نہ روس سے، نہ چین سے، اور نہ ہی حماس، حزب اللہ، یا حشد الشعبی جیسے مزاحمتی گروپوں کو میدان جنگ میں اتارا۔ ایران نے تنہا لڑائی قبول کی اور فتح حاصل کی۔

عطوان نے گفتگو کے آخر میں کہا کہ ایران نے مظلوم فلسطینیوں اور عربوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اخلاقی اور انسانی اصولوں کی پاسداری کی، جس کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں عزت اور احترام ملا ہے۔ اگر ایران دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل سے تعلقات معمول پر لاتا تو شاید حالات مختلف ہوتے، لیکن ایران نے اپنی اصولی پوزیشن کو ہمیشہ برقرار رکھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button