ایران کے نو منتخب صدر نے اپنے پیغام سے مقاومت کی حمایت جاری رکھنے پر مُہر تصدیق ثبت کردی، سید حسن نصر الله
شیعہ نیوز: لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله” کے سربراہ "سید حسن نصر الله” نے کہا کہ ہم نے پہلے دن سے ہی طوفان الاقصیٰ کے لئے پختہ عزم کر لیا تھا۔ لبنانی محاذ پر بھی ہم نے یہی نام یعنی آپریشن طوفان الاقصیٰ استعمال کیا۔ ہم اس لڑائی میں شامل ہوئے اور اس کے اہداف مقرر کئے۔ ہمارے لئے یہ بات مہم ہے کہ دشمن اس وقت کس صورت حال سے دوچار ہے اور وہ خود اس کا اعتراف کرتا ہے۔ ہم اس جنگ میں داخل ہو کر دشمن کو کمزور اور مصروف کرنا چاہتے تھے جس میں ہمیں کامیابی ملی۔ انہوں نے کہا کہ ہم دشمن کی فوج کے ایک بڑے حصے کو مصروف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم انہیں یکطرفہ غزہ جنگ چھیڑنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شمالی مقبوضہ فلسطینی محاذ پر جنگ، غزہ کے محاذ سے جڑی ہے اگر وہ چاہتے ہیں کہ شمالی محاذ پُرسکون ہو جائے تو انہیں غزہ میں جنگ روکنی پڑے گی۔ حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ جو لوگ جنگ کو اس رژیم کے اندر اور باہر سے دیکھتے ہیں وہ اس بات تک پہنچ چکے ہیں کہ غزہ میں جنگ رکنے کی صورت میں ہی شمالی مقبوضہ محاذ پر جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ دشمن نہ صرف الجلیل میں حزب الله کی فورسز کے داخلے سے خوفزدہ ہے بلکہ وہ دراندازی کے خیال سے بھی گھبراتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنی فوج کی تعداد بڑھانا چاہتا ہے۔
سید حسن نصر الله نے کہا کہ صیہونی فوج اپنی تعداد میں اضافہ کر کے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی ناکامیوں کی تلافی کرنا چاہتی ہے۔ البتہ یہ مسئلہ ان کی قوت میں کمی کا باعث ہے۔ اپنی جنگی صلاحیت میں کمی کی وجہ سے دشمن، حریدیوں (کٹر یہودی) سے فوج میں شمولیت کا خواہاں ہے۔ اس بات نے صیہونی رژیم کو ایک اجتماعی مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ جس کے بعد حریدیوں کے سربراہ نے حکومت چھوڑنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ جنگ اور فوج میں اضافے کی ضرورت نے دشمن کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ رضاکارانہ فوجی خدمت کی مدت میں توسیع کرے۔ یہ مسئلہ بھی ایک اجتماعی صورت اختیار کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ نہ بھی کہوں کہ تمام نہتے شہری پھر بھی اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر کے بعد زیادہ تر نہتے لوگوں کا قتل عام کیا۔ سیدِ مقاومت نے کہا کہ لبنانی محاذ اپنے اہداف کے حصول تک جاری رہے گا اور دشمن پر دباو بڑھاتا رہے گا۔ یا دشمن کو مغلوب ہو جانا چاہئے یا تباہ۔ دشمن اس جنگ میں اپنے بدترین دنوں کا سامنا کر رہا ہے۔ نتین یاہو، بزالل اسموٹریچ اور ایتمار بن گویر ایسے افراد ہیں جو اپنے ذاتی مفاد اور سیاسی بقاء کی خاطر جنگ بندی کے معاہدے کے مخالف ہیں۔ دس ماہ گزرنے کے بعد دشمن اپنا کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔
حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ حماس مذاکرات میں مقاومتی محور کی نمائندہ ہے۔ حماس مذاکرات میں جس چیز پر راضی ہے ہم سب اس پر راضی ہیں کیونکہ استقامتی فرنٹ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہے۔ مختلف مشکلات کے باوجود فلسطینی مقاومت نے اپنے اتحاد کو محفوظ رکھا اور دلیری سے جنگ لڑی۔ غزہ کے عوام بشمول بچوں اور خواتین سب نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ نتین یاہو کی جانب سے رفح آپریشن پر زور درحقیقت اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ کیونکہ اس چھوٹے سے علاقے میں کارروائی کے لئے دشمن نے دو ہفتوں کا اعلان کیا تھا مگر اب دو ماہ اور چار دن گزر چکے ہیں ہو سکتا ہے کہ 4 مہینے بھی ایسے ہی بیت جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قابضین اب حزب الله کو ختم کرنے کی دھمکی نہیں دیتے کیونکہ وہ اس سے قبل حماس کو ختم کرنے کی بھی دھمکی دیتے تھے مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سیدِ مقاومت نے کہا کہ دشمن پہلے کہتا تھا کہ حزب اللہ بارڈرز سے تین کلومیٹر دور ہو جائے لیکن جب ہم نے 8 کلومیٹر تک مار کرنے والے کورنیٹ کی نمائش کی تو دشمن ہم سے آٹھ کلومیٹر دوری کا خواہاں تھا۔ پھر جب ہم نے 10 کلومیٹر تک مار کرنے والے الماس میزائل کی نمائش کی تو دشمن کی خواہش ہے کہ وہ ہم سے 10 کلومیٹر دور رہے۔