
چین اور روس کے ساتھ سہ فریقی نشستوں کی توسیع کے لئے ایران کی آمادگی
شیعہ نیوز: ایران کے وزیر خارجہ نے گزشتہ مہینوں کے دوران ایٹمی مسئلے میں ایران، چین اور روس کی سہ فریقی نشستوں کے انعقاد کا ذکر کرتے ہوئے ان اجلاسوں کے موضوعات میں توسیع کے لئے آمادگی کا اعلان کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے رشا ٹوڈے ٹی وی کے ساتھ بات چیت میں، ایران چین اور روس کے سہ فریقی اجلاسوں کے موضوعات میں توسیع کے لئے آمادگی کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے یہ آمادگی، بین الاقوامی مسائل میں ایران، روس اور چین کے درمیان تعاون کے بارے میں رشا ٹوڈے کے اینکر کے سوال کے جواب میں ظاہر کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران، چین اور روس کا تعاون دنیا کے موجوہ حالات میں ایک ضرورت ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے تینوں ملکوں کے سہ فریقی اجلاسوں میں کچھ عرصے سے ایٹمی موضوع پر گفتگو شروع کردی ہے اور یہ سلسلہ جاری رکھنے پر تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : مذاکرات کے حوالے سے میڈیا کی باتوں کی تصدیق نہیں کرتے، اسماعیل بقائی
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ہم ان اجلاسوں میں دیگر موضوعات کو شامل کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایران، چین اور روس، باہمی ہم آہنگی کے ساتھ، بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے موثر قدم اٹھاسکتے ہیں اور ہم اس جہت میں کام کررہے ہیں۔
رشا ٹوڈے کے اینکر نے ایران کے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے روسی صدر سے اپنی حالیہ ملاقات میں قفقاز کی حالات پر بھی بات چیت کی ہے؟ اور روس اور ایران جنوبی قفقاز میں کس طرح مفید واقع ہوسکتے ہیں؟
سید عباس عراقچی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ہاں ہم نے اس بارے میں بھی گفتگو کی ہے خاص طور پر اپنے روسی ہم منصب جناب لاؤروف کے ساتھ اس موضوع پر ہماری تفصیل سے بات چیت ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ ایران اور روس میں قفقاز کے حوالے سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے، ہم اس حوالے سے مستقل طور پر باہم مشاورت کررہے ہیں،ماضی میں بھی اس علاقے کے ملکوں کی شرکت سے مشترکہ اجلاس منعقد ہوئے ہیں اور حال ہی ميں تین جمع تین کے عنوان سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔
ایران کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ تین جمع تین میں، آذربائیجان، جارجیا اور آرمینیا اور ایران، ترکیہ اور روس ہیں۔
انھوں نے روس ایران روابط کے حوالے سے رشا ٹوڈے کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایران اور روس جتنا اس وقت ایک دوسرے سے قریب ہیں اور ان کے روابط اس وقت جتنے محکم ہیں، ایسے پہلے کبھی نہیں تھے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان، اسٹریٹیجک شراکت کا جامع معاہدہ ہے جس نے ہمارے روابط کی اسٹریٹیجک سطح بڑھا دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران اور روس کے درمیان بڑے اقتصادی پروجیکٹوں پر کام ہورہا ہے۔
انھوں نے ٹرمپ حکومت کے موقف کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ماضی ميں ثابت کرچکے ہیں کہ دباؤ، دھمکی اور زور زبردستی کی زبان ہم قبول نہیں کرتے اور دھمکی و دباؤ کے مقابلے میں استقامت کرتے ہیں۔ شاید امریکیوں نے ایک بار پھر ہمارے عزم و ارادے کو آزمانا چاہا ہےاور میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے اس کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔
رشا ٹوڈے کے اینکر نے ایران کے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ ایران امریکہ بالواسطہ مذاکرات کے جاری رہنے کے ساتھ ہی کیا اس بات کا امکان ہے کہ اسرائیلی حکام ایران پر بمباری کی دھمکی پر، امریکی حمایت کے بغیر عمل کریں؟
سید عباس عراقچی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل اس کام پر ہرگز قادر نہیں ہے۔ نہ ماضی میں تھا، نہ اب ہے اور نہ ہی آئندہ اس پر قادر ہوسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائيلی حتی امریکی حمایت سے بھی ایران کے خلاف فوجی آپریشن پر قادر نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم امریکہ کے مقابلے میں بھی اپنے دفاع پر قادر ہیں اور امریکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کس طرح قادر ہیں۔ صیہونی حکومت بھی جانتی ہے کہ اپنے دفاع میں ہماری توانائی کیسی ہے اور کسی بھی حملے پر ہمارے ردعمل کی طاقت کیا ہے۔ بنابریں نہ صرف یہ کہ اسرائیل یہ فکر نہیں کرے گا اور اس کے لئے یہ کام ممکن نہیں ہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا بھی ایسا خطرناک خطرہ مول نہیں لے گا۔