عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں امریکہ کا کردار
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)
تحریر: فاطمہ صالحی
عراق میں بعض سیاسی گروہوں کی کال پر حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے انجام پانے والے عوامی مظاہروں کے نتیجے میں عراقی حکام نے عوام کو اصلاحات کا وعدہ دیا تھا۔ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کہا ہے کہ حکومت قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن عوامی احتجاج کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مظاہرین کی حفاظت کیلئے انہیں مظاہرے کرنے کی اجازت دے گی۔ عادل عبدالمہدی نے ایک اور جگہ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراق کے ہمسایہ ممالک سے بات چیت کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے راہ حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ حکومتی عہدیداروں کی تنخواہوں میں کمی کر دی جائے گی۔ انہوں نے کہا: "ہم نے حکومتی سطح پر موجود کرپشن کے بارے میں تحقیق کرنے کیلئے اعلیٰ سطحی عدالتی کمیٹی کی حمایت کی ہے اور بہت جلد سیاسی پارٹیوں سے متعلق قوانین کو بھی لاگو کر دیں گے۔” انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں حکومت کا استعفیٰ ملک میں بدامنی اور انارکی کا باعث بنے گا۔
دوسری طرف حزب اللہ عراق نے بھی احتجاج کرنے والی عوام کے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی جانب سے بے روزگاری اور کرپشن کے خاتمے کیلئے انجام پانے والی عملی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کام میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا ساتھ دیں۔ حزب اللہ عراق نے ملک میں موجود کرپشن کا حقیقی سبب امریکہ کی جانب سے بنائے گئے قوانین کو قرار دیا اور کہا: "صدام حسین کی سرنگونی کے بعد امریکی منصوبے اور یکطرفہ اقدامات جن میں کوئی معاوضہ ادا کئے بغیر عراق کا خام تیل برآمد کرنا بھی شامل تھا، ملک میں غربت، بے روزگاری اور کرپشن کا باعث بنے ہیں۔” حزب اللہ عراق نے اپنے اعلامیے میں مزید کہا: "ہم امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ عراق میں جاری عوامی مظاہروں کو اپنے سیاسی اہداف کیلئے استعمال کرنے سے باز رہیں۔ اگر انہوں نے داعش سے ملتا جلتا کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی تو ہم ماضی کی طرح اسے بھی شکست دے دیں گے۔ ایسی صورت میں ہم امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنائیں گے۔”
عراق میں حکومت مخالف مظاہرے ایسے وقت شروع ہوئے ہیں، جب عراقی حکومت ایک اور مسئلے سے بھی روبرو ہے، جو ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ہے۔ یہ امریکی فوجی شام سے عراق منتقل ہوئے ہیں۔ عراقی حکام نے اعلان کیا ہے کہ ان امریکی فوجیوں کو ایک ماہ سے زیادہ عراق میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بعض سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام سے بڑی تعداد میں اپنے فوجیوں کے انخلاء کا مقصد شام اور عراق میں داعش کی سرگرمیوں میں مدد فراہم کرنا ہے۔ یاد رہے شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد کرد ملیشیا کی قید میں موجود 12 ہزار داعشی بھی آزاد کر دیئے جائیں گے۔ عین ممکن ہے شام سے بھاگے ہوئے داعش کے دہشت گرد عراق میں داخل ہو جائیں اور حکومت مخالف مظاہروں کی آڑ میں دہشت گردانہ اقدامات انجام دے کر عراق کی سکیورٹی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کریں۔ دوسری طرف امریکہ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ میڈیا ذرائع بھی عراق میں عوامی مظاہروں کی مدد سے عراقی حکومت کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا مہم شروع کرچکے ہیں۔ الحرہ، العربیہ، الحدث اور دیگر نیوز چینلز عوامی مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ صورتحال مرکزی حکومت کے کنٹرول سے باہر نکل چکی ہے اور ملک میں بدامنی اور انارکی پھیل گئی ہے۔
ان ذرائع ابلاغ کے خلاف انجام پانے والی تنقید اس قدر شدید تھی کہ امریکی حکام ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ امریکہ پر اعتراض کیا گیا کہ وہ الحرہ نیوز چینل کی نشریات کو بہت زیادہ کوریج دے رہا ہے، جس کے جواب میں بغداد میں امریکی سفارتخانے نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کو اس نیوز چینل کی نشریات کو سینسر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن اس سے پہلے عراق کی بعض سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا کہ امریکہ الحرہ نیوز چینل میں شائع ہونے والی ان سے متعلق خبروں کو سینسر کر دیتا ہے۔ یاد رہے الحرہ نیوز چینل کا مرکزی دفتر واشنگٹن میں ہے اور اس نیوز چینل نے انتہائی طرفداری سے حالیہ عوامی مظاہروں کو کوریج دی ہے۔ الحرہ نیوز چینل کی شیطنت اس حد تک تھی کہ بعض عراقی حکام نے اس پر پابندی عائد کر دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ بہرحال عراق کے موجودہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی حکومت کو امریکہ اور اس کے اتحادی عناصر کی جانب سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ عوامی احتجاج اور مظاہروں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔