عراق: مظاہروں کے دوران تشدد بھڑکانے والوں کے خلاف کارروائی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) عراق کے صدر اور وزیراعظم نے کہا ہے کہ مظاہروں کے دوران تشدد بھڑکانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جبکہ عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد حلبوسی نے پارلیمنٹ کی عمارت میں مظاہرین کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔
عراق کے السومریہ نیوز چینل نے ایک پارلیمانی ذریعے کے حوالے سے خبردی ہے کہ اسپیکر محمد حلبوسی نے سینچر کو پارلیمنٹ کی عمارت میں مظاہرین کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔
اس ملاقات کا مقصد قانون کے دائرے میں مظاہرین کے مطالبات اور انہیں پورا کرنےکے طریقوں کا جائزہ لینا بتایا گیا۔
اس درمیان عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے عراقی صدر برھم صالح سے ملاقات کی جس میں ملک کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
ملاقات میں عراقی صدر اور وزیراعظم دونوں نے عراقی نوجوانوں کے جائز مطالبات پورے کرنے کا عزم ظاہر کیا ۔
اعلی عراقی قیادت نے اس ملاقات میں کہا کہ مظاہرین کے جائز مطالبات پورے کئے جائیں گے اور عراقی نوجوانوں کے مطالبات اس طرح سے پور کئے جائیں گے وہ آبرومندانہ زندگی بسر کرسکیں۔
دوسری جانب عراقی میڈیا نے خبردی ہے کہ عراقی سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے الدیوانیہ شہر میں دو افراد کو گرفتار کرلیا ہے جو مظاہرین پر فائرنگ کررہے تھے۔
اس درمیان علاقے کے مسائل پر نظر رکھنے والے معروف تجزیہ نگار امین حطیط نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا ہے کہ عراق کے حالیہ پرتشدد مظاہروں کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکہ کے غیر قانونی مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا تھا ۔
خبروں کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ بغداد واشنگٹن اسٹریٹیجک معاہدے پرعراقی حکومت نظرثانی کرے تاکہ عراق میں تعینات چھے ہزار امریکی فوجیوں کی موجودگی کو امریکہ قانونی شکل دے سکے لیکن عراقی وزیراعظم نے امریکہ کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔
عراقی وزیراعظم نے امریکہ کی اس درخواست کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ عراق، چین کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو فروغ نہ دے ۔ علاوہ ازیں عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے عوامی رضا کار فورس الحشد الشعبی کو تحلیل کرنے کے امریکی مطالبات اور دباؤ کو بھی مسترد کردیا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ یہ بھی مطالبہ کررہاہے کہ بغداد کی حکومت القائم اور شام کے سرحدی علاقے البوکمال کی سرحد کو بند رکھے ، ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کم کردے ، امریکی محاصرے کو قبول کرلے اور عراق کے مختلف علاقوں میں الحشد الشعبی کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملوں پر خاموشی اختیار کرے لیکن عراقی وزیراعظم نے امریکہ کے ان سبھی مطالبات کو مستردکردیا ۔
تجزیہ نگارامین حطیط نے کہا ہے ان مطالبات کے ساتھ ساتھ امریکہ نے عراقی وزیراعظم کو دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردےگا لیکن عبدالمہدی نے امریکہ کی اس دھمکی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی اور یہی وجہ تھی کہ عراق میں اس طرح کے مشکوک مظاہروں کی لہر اٹھی جو معاشی اور رفاہی مسائل کی آڑ میں کرائے گئے۔
اس درمیان بغداد میں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی صدارت میں اعلی سطحی سیکورٹی نشست میں بھی ملک کی امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس میں وزیردفاع نجاح الشمری اور وزیرداخلہ یاسین الیاسری بھی موجود تھے ۔
عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے ساتھ ہی ملک کے بعض علاقوں میں نافذ کرفیو اٹھالئے جانے کا اعلان بھی کیا ۔
دریں اثنا عراق کے اندر سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عراق کے سبھی شہروں میں حالات معمول پر آچکے ہیں ۔