عراقی صدر برھم صالح کا استعفیٰ ناقابل قبول ہے۔ قیس الخزعلی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) عراق کی جماعت عصائب اہل الحق کے سیکریٹری جنرل قیس الخزعلی نے کہا ہےکہ صدر برہم صالح کے استعفے کا کوئی جواز نہیں ہے اور ان کا یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے۔
عراق کی جماعت عصائب الحق کے سیکریٹری جنرل قیس الخزعلی نے کہا ہے کہ اگر ملک کا صدر آئین میں متعین اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرے گا تو اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا۔
عصائب اہل الحق کے سربراہ نے کہا ہے کہ صدر برہم صالح نے استعفیٰ دینے کی جو وجہ بتائی ہے وہ کافی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی دھڑوں کو چاہئے کہ وہ آئین سے غداری کی بناپر برھم صالح کو عدالت میں لے جائیں۔
عراقی پارلیمنٹ کے سربراہ محمد الحلبوسی نے البنا اتحاد کو سب سے بڑا پارلیمانی دھڑا قراردیا ہے اور اس سیاسی دھڑے نے اسعد العیدانی کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے نامزد کیا لیکن صدر برھم صالح نے اسعد العیدانی کے نام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان دیا۔
گذشتہ مہینے وزارت عظمی کے عہدے سے عادل عبدالمہدی کے استعفے کے بعد عراقی پارلیمان کے سب سے بڑے دھڑے البنا نے وزارت عظمی کے عہدے کے لئے تین نام پیش کئے لیکن بعض عراقی ذرائع کا کہنا ہے کہ برھم صالح نے غیر ملکی دباؤ خاص طور پر امریکی دباؤ کی وجہ سے کسی بھی نام کی تائید نہیں کی اور یوں کوئی بھی نام انہوں نے پارلیمنٹ کو پیش نہیں کیا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ قانونی لحاظ سے اگر پارلیمنٹ کا اسپیکر پارلیمنٹ کے سب سے بڑے دھڑے کے بارے میں خط لکھ کر صدر کو آگاہ کردے تو اسے اس بات کو قبول کرنا چاہئے اور اسی دھڑے کے نامزد امیداور کے نام کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہئے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہےکہ برھم صالح کے عہدہ صدارت سے مستعفی ہوجانے کی ایک وجہ انتخابات کے نئے قانون کے بارے میں عراقی کردوں کا موقف بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال اگر برھم صالح کا استعفیٰ عراقی پارلیمنٹ قبول کرلیتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کا اسپیکر عبوری طور پر صدر کے فرائض انجام دے گا اور آئندہ ایک مہینے کے اندر اندر نئے صدر کا انتخاب ہوگا۔