مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

اسرائیل کا جنگی ضروریات کے لئے بھارت پر انحصار

شیعہ نیوز:خصوصی رپورٹ:

15 مئی 2024 کی صبح ہزاروں ہسپانوی کارکن فلسطینی جھنڈے اٹھائے کارٹاجینا کی بندرگاہ پر بورکوم نامی جہاز کو بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے روکنے کے لئے جمع تھے۔ اس کے ساتھ ہی یورپی پارلیمنٹ کے 9 ارکان نے بھی میڈرڈ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جہاز کو اسپین کے ساحل پر لنگر انداز ہونے سے روکے، ورنہ اس کا مطلب فوجی ساز و سامان کو اسرائیل بھیجنے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا۔ اس احتجاج کی بدولت بورکم کو غیر متوقع طور پر کارٹاجینا کی بندرگاہ سے سلووینیا کی بندرگاہ کوپر کی طرف موڑنا پڑا، اس اقدام نے جہاز میں موجود ساز و سامان کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ کیا۔

اسرائیل کو مسلح رکھنے میں بھارت کا کردار:
رپورٹس کے مطابق دھماکہ خیز مواد لے جانے والا بحری جہاز جنوب مشرقی بھارت میں چنائی کی بندرگاہ سے غزہ کی پٹی سے صرف 30 کلومیٹر دور مقبوضہ علاقوں میں اشدود بندرگاہ کی طرف گیا۔ بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ جہاز میں 20 ٹن سے زائد راکٹ انجن، 12.5 ٹن میزائل اسپیئر پارٹس، 1500 کلوگرام اعلیٰ دھماکہ خیز مواد اور 700 کلو گرام سے زائد توپ کے گولے موجود تھے۔

رپورٹس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دفاعی ساز و سامان تیار کرنیوالی صیہونی کمپنی اسرائیل ملٹری انڈسٹریز (IMI) نے حیدرآباد سمیت ہندوستان میں متعدد فوجی منصوبوں میں اہم سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور باربرداری کی تفصیلات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ پیداوار اسرائیل کی جنگی مشین کو تقویت دے رہی ہے۔ صیہونی اخبار یدیوت اہرونوٹ کے مطابق بھارت نے غزہ جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیل کو مختلف قسم کے توپ گولے، چھوٹے ہتھیار اور ڈرون فراہم کیے ہیں۔

بورکم اسرائیل کے لئے ہندوستانی ہتھیار لے جانے والے جہازوں میں سے صرف ایک تھا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں 21 مئی 2024 کو اسپین نے 27 ٹن دھماکہ خیز مواد لے جانے والی ماریان دانیکا کشتی کو حیفا کی طرف لنگر انداز ہونے سے روک دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد النصیرات کیمپ پر بمباری کی شائع ہونے والی تصاویر میں میڈ ان انڈیا سے لکھے ہوئے میزائل دکھائے گئے تھے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماریان دانیکا کارگو کو النصیرات پر بم باری کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

بھارتی ایندھن سے لیس اسرائیلی میزائل:
بھارتی کمپنیاں اسرائیلی ہتھیاروں بشمول پرائم ایکسپلوریشنز کی فراہمی کے ذریعے جنگ میں شراکت دار ہیں، جو دھماکہ خیز مواد، راکٹ ایندھن، دھواں بم اور وار ہیڈز تیار کرتی ہے، اور ان کمپنیوں کے شیلٹر توڑنے کے لئے ہونیوالی بمباری میں استعمال ہونیوالے میزائلوں اور بموں کے لیے دھماکہ خیز اجزاء کی فراہمی کے لیے اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کارپوریشن (آئی اے آئی) کے ساتھ متعدد معاہدے ہیں۔ رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہی بارودی مواد پیجرز دھماکوں میں استعمال کیا گیا تھا۔

میزائلوں کی ایک بڑی مثال براک 8 ہے، جو اسرائیلی اور ہندوستانی کمپنیوں بشمول پرائم کا مشترکہ منصوبہ ہے، جسے اسرائیل نے بار بار غزہ کی پٹی پر بمباری کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے ساتھ پرائم کا تعاون 2021 سے شروع ہوا۔ پرائم پہلی ہندوستانی کمپنی ہے جس نے راکٹ انجنوں کی برآمد کے لئے اسرائیل کے ساتھ ایک بڑے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ کمپنی نے گزشتہ مارچ میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے اسرائیل کو برآمدات سے 2024 کی پہلی سہ ماہی میں ریکارڈ آمدنی حاصل کی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ میں استعمال ہونے والے اسرائیلی راکٹوں کے کچھ حصے ہندوستانی ساختہ تھے۔

گوتم اڈانی کا کردار:
تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان قریبی تعاون کے نتیجے میں ہندوستانی تاجر گوتم اڈانی کا تیار کردہ ہرمز 900 ڈرون بھی اس سامان میں شامل ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف ہرمز کا استعمال موجودہ جنگ سے پہلے کا ہے۔ المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ غزہ میں 2014 کی اسرائیلی جنگ میں ایک تہائی سے زائد فلسطینی شہدا کو ہرمز جیسے ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، جس سے فلسطینیوں کی شہادتوں میں نئی دہلی کے کردار پر سوالات ابھرتے ہیں۔

اڈانی کا اسرائیل کے ساتھ تعاون 2018 کے شروع سے جاری ہے، جب انہوں نے ہرمس 900 کی تیاری کے لئے 15 ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، تاکہ وہ ان ڈرونز کی تیاری میں اسرائیل کا واحد ہندوستانی شراکت دار بن سکیں۔ 2018 میں اڈانی نے اسرائیل آرمز مینوفیکچرنگ کمپنی (آئی ڈبلیو آئی) کے ساتھ شراکت داری شروع کی تاکہ پی ایل آر لائٹ رائفلیں تیار کرنے کے لئے ایک مشترکہ منصوبہ شروع کیا جاسکے۔ یہ منصوبہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان فوجی صنعتی اتحاد میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

دیگر بھارتی کمپنیوں کا کردار:
مذکورہ گروپ کے علاوہ دیگر بھارتی کمپنیاں بھی غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ انڈین ایمونیشن مینوفیکچرنگ کارپوریشن (ایم آئی ایل) ان میں سے ایک ہے، جو اسرائیل کے لئے گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد کی ایک وسیع رینج تیار کرتی ہے۔ ٹاٹا اسرائیل کو جدید الیکٹرونک اجزاء برآمد کرتا ہے، جو اسرائیلی ڈرونز اور ریڈارز کے لیے ریسیور اور کمپیوٹرز میں استعمال ہوتے ہیں، ساتھ ہی بھارت الیکٹرانکس اسرائیل کے دفاعی نظام کے لیے سینسرز اور لیزر سسٹم جیسے جدید الیکٹرونک اجزاء تیار کرتا ہے تاکہ ان سسٹمز کی نگرانی اور کنٹرول کی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکے۔ کم از کم 19 بھارتی کمپنیاں اسرائیلی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے ساتھ تعاون میں شریک ہیں۔

اسرائیل اور بھارت کے مشترکہ مفادات:
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان فوجی تعاون اور ان کے مفادات کا ملاپ حادثاتی نہیں، بلکہ دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی اور فوجی مفادات پر مبنی ایک گہرے تزویراتی اتحاد کا نتیجہ ہے۔ بھارت کی سستی لیبر فورس نے اسرائیل کو بھارت کے لیے ایک اچھا تجارتی شراکت دار بنا دیا ہے، اس کے علاوہ بھارت اسرائیلی ہتھیاروں کی ایک بڑی اور پھلتی پھولتی مارکیٹ ہے۔ اسرائیل اپنی ٹکنالوجی کو ترقی دینے کے لئے ہندوستانی مہارت اور تجارت کا استعمال کر رہا ہے۔

جبکہ ہندوستان اپنی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے اور اس شعبے میں خودانحصاری کے موقع کے طور پر بھی دیکھتا ہے حالانکہ بھارت اپنی خودمختاری اور خود کفالت کے عنصر کے طور پر اس طرح کے تعاون سے مقصد حآصل نہیں کرسکتا۔ مختصر یہ کہ اسٹریٹجک وژن اور مشترکہ دشمن نئی دہلی کو تل ابیب کے قریب لا سکتے ہیں، لیکن یہ قرابت بھارت کے مقاصد پورا کرنیکی امید بر نہیں لا سکتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button