اسرائیل نسل کشی نہیں کر رہا، برطانوی وزیراعظم
شیعہ نیوز: جعلی صیہونی رژیم کے بانی ملک برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے ایک رکن پارلیمنٹ کی باقاعدہ درخواست کے باوجود بھی غزہ میں جاری غاصب اسرائیلی رژیم کے کھلے جنگی جرائم کو "نسل کشی” ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ گذشتہ روز منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں برطانوی رکن پارلیمنٹ کارلا ڈینیئر نے وزیراعظم اسٹارمر سے کہا کہ وہ غزہ میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین-انرو کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے سے متعلق اسرائیلی کارروائی کے پیش نظر "نسل کشی” کا عنوان استعمال کریں جس پر کیئر اسٹارمر نے غزہ میں وقوع پذیر ہونے والے سانحات پر تشویش کا اظہار تو کیا لیکن اس بارے "نسل کشی” کی اصطلاح استعمال کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اسٹارمر کا کہنا تھا کہ میں نے غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے کبھی بھی نسل کشی کے طور پر بیان نہیں کیا اور میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تمام فریقوں کو بین الاقوامی قانون کی پابندی کرنی چاہیئے۔
واضح رہے کہ جنوری 2024 کے ایک فیصلے میں، بین الاقوامی عدالت انصاف نے غزہ میں جاری نسل کشی پر مبنی صیہونی کارروائیوں پر اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی شکایت کے حوالے سے ایک عارضی حکم جاری کیا تھا جس میں جنوبی افریقہ کے دعوے کو "ممکن” قرار دیتے ہوئے تل ابیب سے کہا گیا تھا کہ وہ "نسل کشی کے جرم کو روکنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے”۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی اسرائیل پر متعدد بار "نسل کشی” کا الزام لگایا جا چکا ہے۔ مارچ 2024 میں، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ اس بات کے یقینی دلائل موجود ہیں کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے جرم کی حد کو بھی پھلانگ چکے ہیں۔ سال 1948 کے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن نے نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ کسی قوم، نسلی گروہ یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کر دینے کے ارادے سے کئے گئے یہ پانچ اعمال:
1- اس گروہ کے اراکین کو قتل کرنا،
2- انہیں شدید جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا،
3- ان کو تباہ کر دینے کے لئے ان پر سخت حالات زندگی مسلط کر دینا،
4- بچوں کی پیدائش کو روکنا اور
5- ہدف قرار پانے والے گروہ کے بچوں کو جبری نقل مکانی کا نشانہ بنانا۔