
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا متفقہ فیصلہ
شیعہ نیوز : قبلہ اول پر قابض غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا اہم متفقہ مؤقف سامنے آگیا ہے۔ اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے، سول و ملٹری قیادت کا متفقہ فیصلہ۔
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر کی جانب سے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
چوہدری غلام حسین کے مطابق جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پراپیگنڈہ کر رہے ہیں وہ ملک دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہیں، پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ہر قسم کا دباؤ مسترد کر دیا۔
پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا خارج ازامکان ہے۔
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کا اسرائیل سے متعلق مئوقف واضح ہے، وزیراعظم اسرائیل اور فلسطین بارے دو ٹوک مؤقف دے چکے ہیں۔
فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلے کو حل کرنے تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔مسئلہ فلسطین کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دوریاستی حل کے حامی ہیں۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان فلسطین کی حمایت جاری رکھے گا۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان پر غیر ملکی دباؤ بڑھے گا۔
سینیئر صحافی کامران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس دورے کو تاریخی خبر قرار دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے کل سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو بھی موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔
ایک اور ٹویٹ میں کامران خان کا کہنا تھا کہ دنیا کے مسلم ممالک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک پیغام ہے کہ ’ پاکستان کو بھی اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی ‘۔انہوں نے مزید کہا کہ اقوام کے مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتے بلکہ مستقل صرف مفادات ہوتے ہیں۔پاکستان اپنے اختیارات کو استعمال کرنے میں کیوں شرمندہ ہے۔