اگلے دو سال میں اسرائیل کا وجود نہیں رہے گا
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ہم دو ہزار دو میں اسلام آباد منتقل ہوئے، اسی سال سے ہی اسلام آباد میں ہونے والی مذہبی اور سیاسی مذہبی تقریبات میں باقاعدگی سے حصہ لینے لگے۔ اس وقت سکیورٹی صورتحال بھی کافی بہتر تھی، اس لیے اسلام آباد ہوٹل، میریٹ ہوٹل اور دیگر فور سٹار ہوٹلز میں ہونے والے پروگراموں میں شرکت کافی آسان ہوتی تھی۔اس وقت ماہ مبارک رمضان میں یوم القدس کے حوالے سے کئی پروگرامز ہوا کرتے تھے۔ ان پروگراموں میں دو شخصیات سے متعارف ہوئے، ایک کا تعارف عوامی تحریک کے نائب صدر کے طور پر کرایا جاتا تھا اور ان کا نام جناب مرتضیٰ پویا صاحب تھا، دوسری شخصیت تحریک ختم نبوت کے تاحیات نائب صدر جناب عین غین کراروی صاحب کی تھی۔ یہ عین غین سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہی رہا، البتہ اصل میں اس سے مراد علی غضنفر ہی تھا۔ کراروی صاحب بہت دلچسپ شخصیت تھی، چلتی پھرتی تاریخ تھے، کاش جو کچھ وہ بتاتے تھے، سب کچھ کہیں لکھ لیا ہوتا۔انہوں نے دو کتابچے بھی لکھے، ایک کا نام فتووں کا تلاطم تھا اور دوسرے کا نام انہوں نے فتووں کا سونامی رکھا۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ آخر میں دونوں شخصیات جناب ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ عوامی تحریک میں فعال رہیں۔ یوم القدس کی مناسبت سے منعقدہ سیمینارز میں پویا صاحب گرجتے بھی تھے اور برستے بھی تھے۔ ان کے دل میں اہل فلسطین کے لیے ایک درد دیکھا، ان کی آنکھوں میں مستقبل میں دیکھنے کی چمک تھی۔ وہ تحریک مزاحمت کو ہی فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ بتایا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگلے دس سال میں اسرائیل کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ ہم جیسے لڑکے بالے تو پرجوش ہو کر نعرے مارنے کے لیے پر تولتے، مگر فورسٹار ہوٹل کا ماحول مانع ہو جاتا۔ آخر آخر میں پیچھے کھڑے صحافیوں کو چہ مہ گویاں کرتے دیکھا کہ کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں؟ بھلا اسرائیل کو بھی مٹایا جا سکتا ہے؟!
رہبر معظم کے آخری کچھ سالوں کے خطبات کو ملاحظہ کریں تو اس میں بھی یہ بات تواتر سے موجود ہے کہ اسرائیل کا وجودہ ختم ہو جائے گا اور یہ جعلی ریاست زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے۔ فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سربراہ سے ملاقات میں رہبر معظم نے فرمایا تھا کہ آئندہ 25 برسوں میں اسرائیل نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس ملاقات میں آپ نے فرمایا تھا کہ صیہونی حکومت جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تمام مسلمانوں اور فلسطینیوں کی متفقہ جدوجہد کی شرط کے ساتھ اگلے 25 برس میں صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائے گی۔ آغا حسن نصراللہ تو کئی سالوں سے اسرائیلی دفاع کے پورے نظام کو مکڑے کے جالے سے تشبیہ دیتے آرہے ہیں کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عملی طور پر انہوں نے اسرائیل کے اندر موساد کے مراکز پر حملے کرکے بتا بھی دیا ہے کہ یہ حقیقت میں کچھ نہیں ہے۔
کچھ لوگ اسے محض سیاسی بیان قرار دیتے ہیں کہ یہ ایک نعرے کے طور پر کہا جاتا ہے۔ بہت سے ظاہر پرست تو ایسے ہیں، جو سرے سے اسے ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہوتے۔ ان کے خیال میں سب کچھ ویسے ہی ہوتا ہے، جیسے مغربی میڈیا پروپیگنڈا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ایسے ہی ہوتا تو امریکہ ویتنام، فغانستان اور دیگر کئی ممالک سے کبھی نہ بھاگتا۔ یاد رکھیں، چیزیں ایسی نہیں ہیں، جیسی ہمیں دکھائی جاتی ہیں اور بڑے غیر جانبدار بن کر بڑا جانبدارانہ تجزیہ کر دیا جاتا ہے۔ محکوم اور پسماندہ ممالک کے بظاہر اعلیٰ دماغ بھی دنیا کے بظاہر ترقی یافتہ ممالک سے مرعوب ہوچکے ہوتے ہیں اور انہیں اپنی صلاحیتیں اور وسائل ہیچ لگتے ہیں۔ اپنے ہاں کی اچھائیاں بھی برائیاں لگتی ہیں۔ ان کا بس چلے تو حج و زیارات کے مقامات بھی تبدیل کر دیں بلکہ وہ کرچکے ہیں۔
انہیں یورپ کی یکے بعد دیگرے فوجی شکستیں اور غزہ جنگ میں اخلاقی شکست بھی نظر نہیں آتی۔ یورپ کا پورا مقدمہ جن انسانی حقوق پر کھڑا تھا، وہ سارے کا سارا دھڑم سے گر گیا ہے۔ اب دنیا کے انصاف پسندوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ یہ سب یورپ کے استعماری نعرے ہیں۔ جہاں کسی قوم و ملت پر قبضہ کرنا ہوتا ہے، وہاں ایسے نعرے لگا کر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ رہبر معظم، آغا حسن نصراللہ اور جناب مرتضیٰ پویا تو بیس پچیس سال کی بات کرتے ہیں اور ہمارے ہاں کے مغربی فکر دانشوروں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی، ان کے لیے کل رات کی امریکی صدارتی ڈیبیٹ ایک یقینی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ لوگ یورپ اور امریکہ کو اپنا امام مانتے ہیں۔
ہم بغیر کسی کمی بیشی کے اسے پیش کر دیتے ہیں، تاکہ پوری تصویر واضح ہو جائے۔ یاد رہے کہ یہ ڈیبیٹ سابق امریکی صدر ٹرمپ اور موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان ہے، کوئی گلی محلے کے کونسلروں کے درمیان نہیں ہے۔میزبان نے کملا ہیرس سے پوچھا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے کیسے نمٹیں گی اور مذاکرات میں تعطل کو کیسے ختم کرسکتی ہیں۔؟ کملا نے اس کے جواب میں اپنے پرانے بیانات دہرائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن یہ جنگ ختم ہونی چاہیئے اور اسے فوری طور پر ختم ہونا چاہیئے۔ کملا نے جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ دو ریاستی حل اور غزہ کی تعمیر نو کی بات کی ہے۔
ٹرمپ سے پوچھا گیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کیسے ختم کریں گے؟ اور حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے شہریوں کو واپس کیسے لائیں گے؟ انھوں نے اپنے جواب کا آغاز یہ دعویٰ کرتے ہوئے کیا ہے، اگر وہ صدر ہوتے تو یہ تنازعہ کبھی شروع ہی نہیں ہوتا۔ ٹرمپ نے ہیرس پر الزام لگایا ہے کہ "وہ اسرائیل سے نفرت کرتی ہیں۔ اگر وہ صدر بن گئیں تو مجھے یقین ہے کہ اب سے دو سالوں میں اسرائیل کا وجود نہیں رہے گا۔” جناب یہ اصل حقیقت ہے کہ اگر امریکہ کی حمایت نہ ہو اور دن رات امریکی جہاز سمندر سے حفاظت نہ کر رہے ہوں تو اسرائیل کی حقیقی عمر یہی ہے، جو ٹرمپ نے بیان کر دی ہے، یعنی فقط دو سال۔ وہ لوگ جنہیں اسرائیل بہت طاقتور لگتا ہے، انہیں اس مکالمے کو غور سے سننا چاہیئے اور پھر ان رہنماوں کی دانش کو سلام کرنا چاہیئے، جو ایک عرصے سے اسرائیل کی حقیقی طاقت کے مطابق اس کے وجود کی عمر کا تجزیہ کر رہے ہیں۔