
اسرائیل جنگ ہار چکا ہے
اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور یہ حملہ امریکی شہ پر کیا گیا تھا۔ امریکہ یہ چاہتا تھا کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد ایران کے حوصلے جواب دے جائیں گے اور وہ دوڑتے ہوئے ہمارے پاس آئیں گے اور ہم بطور احسان اپنی مرضی کا معاہدہ کرکے جنگ بندی کرائیں گے۔ ایران نے بڑی تیزی سے جوابی حکمت عملی اختیار کی اوراب لگ یہ رہا ہے کہ ایران کی تیاری اس جنگ کو لمبا کھینچنے کی ہے۔ اسرائیلیوں نے نے جنگ کے تیسرے دن ہی دہائیاں دینا شروع کر دی تھیں کہ امریکہ جنگ میں شامل ہو۔ ٹرمپ صیہونی لابی کے زیر اثر ہے، اس نے چند دن تاخیر کی اور اعلان کرتا رہا کہ دو ہفتے تک حملہ نہیں ہوگا، مگر کل صبح حملہ کر دیا گیا۔ اس حملہ نے ایک حقیقت واضح کر دی کہ اسرائیل میں ایران سے لڑنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی قابضین اسرائیل سے فرار ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کا پورا سیٹ اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہمیں تو ہر حالت میں امن میں ہی رہنا ہے اور جنگ کے شعلے مسلمان ملکوں میں ہی بھڑکائے رکھنے ہیں، اس لیے ہمیں کسی ڈر اور خوف کی ضرورت نہیں ہے۔
جب ایران کے میزائلوں نے امریکی اور نیٹو کے تمام حصار توڑ کر آخری ہٹ آئرن ڈوم پر لگائی اور اسرائیل کو ہٹ کرنے لگے تو انہیں اعلان کرنا پڑا کہ ہم سو فیصد تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔ اب اسرائیلی قابضین راتیں شیلٹرز میں بسر کر رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ بڑی تعداد میں سمندری راستوں سے یونان فرار ہو رہے ہیں، جہاں سے اگلی دستیاب فلائیٹس کے ذریعے یہ اپنے اپنے اصلی وطن لوٹ جائیں گے۔ امریکی حملے اور اس کی صلاحیتوں کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس طرح کا حملہ ہوا ہے، اسلامی جمہوری ایران کی افواج اور پاسداران نے پہلے ہی اس کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ مارچ میں ہی یہاں سے اصل مواد منتقل کر دیا گیا تھا۔ اسی لیے کسی قسم کی تابکاری نہیں ہوئی اور نہ ہی اتنے بڑی دھماکے محسوس کیے گئے ہیں۔ سپاہ کی حکمت بہت کامیاب رہی، جس میں انہوں نے ان سائٹس کو ایک طرح سے خالی کر دیا، جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
جہاں تک انفراسٹکچر کی بات ہے تو وہ بھی زمین پر موجود بالائی حصے کو نقصان پہنچا ہے۔ زیر زمین تمام تنصیبات کے حوالے سے ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ ایک دوست بڑی بات کہی کہ امریکی حملے کا خوف ہی رہتا تو بڑا اچھا تھا، حملہ ہوگیا تو اس کا خوف ہی نکل گیا۔ حملے کرتے ہی یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اب ہم آگے جنگ نہیں چاہتے، لہذا ہم پر حملہ نہ کیا جائے۔ عجیت مذاق ہے، آپ ایک آزاد اور خود مختار ملک پر حملہ کریں اور پھر اس جارحیت پر داد کے طلبگار بھی ہوں اور جس ملک پر حملہ کیا گیا ہے، اس سے جوابی کارروائی نہ کرنے کا بھی حکم صادر فرما دیں!!! مغرب تمام طرح کے ضابطے بھول جاتا ہے۔ آج مغربی میڈیا امریکی کارروائی کی تحسین کر رہا ہے اور اس آپریشن کو ماڈل کے طورپر پیش کر رہا ہے۔ ان کو شرم نہیں آتی کہ اس حوالے سے بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے۔؟ اقوام متحدہ کے ضابطے کیا بتاتے ہیں؟ کیونکہ یہ ایک مسلمان ملک کے خلاف ہے، لہذا یہاں کوئی قانون اور کوئی ضابطہ نہیں چلے گا۔
اب یہی خبر دیکھ لیں، برطانیہ میں پولیس نے پارلیمنٹ کے باہر فلسطین ایکشن کے احتجاج پر پابندی لگا دی۔ ویسے مغرب ٹھیک بے نقاب ہو رہا ہے۔ مغربی تہذیب جابرانہ اور کالونی ازم پر یقین رکھتی ہے، جس میں اقوام کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔ آصف محمود صاحب نے اس پر خوب لکھا ہے: ٹرمپ کی طرح سرخ مائل اس غلیظ مکوڑے کو ہم لال بیگ کیوں کہتے ہیں۔؟ اس لیے کہ لال بیگ نامی ایک فرد کی تذلیل مقصود تھی، جس کے لیے انگریز نے یہ نام متعارف کرایا، بالکل ایسے ہی جیسے انگریز وائسرائے نے شیر میسور کی نفرت میں اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے عثمانی سلطنت کے منصب خلافت کی توہین کے لیے حجام کو انگریز نے خلیفہ کہنا شروع کر دیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ٹیپو کے وزیر مالیات یعنی خان سامان کے منصب کی تذلیل کرتے ہوئے خانسامہ بنا لیا گیا۔
سفید فام تہذیب ایک سفاک تہذیب ہے۔ جتنا خون اس نے بہایا ہے، اتنا ساری دنیا کی ساری تاریخ کے سارے درندوں نے مل کر بھی نہیں بہایا ہوگا۔ یہ تہذیبی یلغار ہے۔ کچھ حساسیت کا مظاہرہ تو کرنا ہوگا۔ لال بیگ تو نہ کہیے، ٹرمپ کہہ لیجیے، نیتن یاہو کہہ لیجیے۔ بلاول بھٹو زرداری نے آج پارلیمنٹ میں بہت اچھی تقریر کی ہے، کاش اس پر تھوڑا بہت عمل بھی کر لیا جائے۔ کہتے ہیں: صہیونی ریاست سب سے پہلے فلسطین کی طرف بڑھی، دنیا نے آواز نہیں اٹھائی، اس کے بعد وہ لبنان کی جانب گئے، ہم نے آواز نہیں اٹھائی، کیونکہ ہم لبنانی نہیں ہیں، اس کے بعد اسرائیل نے یمن پر حملے کیے، ہم نہیں بولے، کیونکہ ہم یمنی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اسرائیل نے ایران پر حملے شروع کر دیئے ہیں، اگر ہم نے اب بھی آواز نہیں اٹھائی تو اس وقت کچھ بھی نہیں بچے گا، جب وہ ہماری جانب آئیں گے، نیتن یاہو جنگوں کو بڑھاوا دے کر تیسری عالمی جنگ کے خطرات کو بڑھا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ایران کی ملٹری قیادت کو میدان جنگ میں نہیں بلکہ ان کی رہائش گاہوں میں نشانہ بنایا، جوہری سائنسدانوں، صحافیوں اور ان کے اداروں کو ٹارگٹ کیا گیا، صہیونی ریاست نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزری کرتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیانات بھی اسی لب و لہجہ کے ہیں۔ جب خطرے کا علم ہے کہ اس نے ہماری طرف بڑھنا ہے تو اس کا سدباب کیوں نہیں کیا جا رہا؟ کیا پاکستان یہ افورڈ کرسکتا ہے کہ اس کے بارڈر پر موساد موجود ہو؟ بلوچستان جیسا حساس علاقہ براہ راست ان کے زیراثر آجائے گا۔ اس لیے آج اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ عملی طور پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کا دفاع تہران کے دفاع میں مضمر ہے۔ اس کو سمجھ لینا چاہیئے، اسرائیل پاکستان کو ایران سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس