مضامینمقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

اتحاد امت کے داعی شیعہ مسلمان

اگر عدل اور عقل سے کام لیں تویہ حقیقت روز روشن کی مانند واضح، صاف شفاف دکھائی دیتی ہے کہ شیعہ اسلام اولاد آدم کو فتنہ قابیلی مائنڈ سیٹ سے نجات دلاکر امت واحدہ بنانے کے لیے واحد مکتب کے طور پر اپنا کردار اداکرتا آیا۔ بدترین حالات میں بھی شیعہ مومن علماء و اکابرین نے اپنا نیک عملی کردارادا کرنا ترک نہیں کیا۔

شیعہ مسلمانوں کے نیک عمل کو سراہنے کی ضرورت ہے
تاریخ انسانیت و اسلام میں شیعہ اسلام کے منطقی و عادلانہ و عاقلانہ موقف کی حقانیت ثابت ہوئی ہے۔ جب شیعہ اسلام کے پیروکار اولاد آدم کو امت واحدہ بنانے جیسے اعلیٰ ترین نیک ہدف کے لیے کوشاں ہیں تو مسلمانوں کے اتحاد کے لیے تو بدرجہ اولیٰ انکی خدمات ایک زندہ حقیقت بن کر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر چمک رہی ہیں۔

مسلمانوں کے اتحاد کے داعی شیعہ مسلمان
دور کیوں جائیں ہم آج بھی دنیا پر ایک نظر ڈال کر اس زندہ حقیقت کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایران، عراق، بحرین، نائیجیریا، لبنان، شام، یمن، فلسطین، کشمیر، برما، سمیت ہر جگہ شیعہ اسلام مظلوموں کے حق اور اتحاد امت کے لیے عملی خدمات انجام دیتا نظر آرہا ہے۔

عالم اسلام کی مشکلات کا حل اتحاد امت
اتحاد امت کے داعی شیعہ مسلمان
پاکستان میں بھی دیکھیں تو قرارداد مقاصد میں شیعہ مومن علمائے اسلام نے ملک کو اسلام کے تابع قرار دینے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ شیعہ اسلام نے اپنا عقیدہ دیگر پر زبردستی مسلط کیا ہو۔

ایران کے شیعہ اسلامی انقلاب کے بعد اتحاد بین المسلمین پر تاکید
ایران کے شیعہ اسلامی انقلاب کے بعد کی ایرانی ریاست کے عملی کردار میں اتحاد بین المسلمین پر تاکید کی گئی۔ بارہ تا سترہ ربیع الاول جشن عید میلاد النبی ﷺ کی مناسبت سے شیعہ ملک ایران نے نظام ولایت فقیہ کے سائے میں ہفتہ وحدت مسلمین منانے کی سرکاری روایت قائم کی۔ عراق میں شیعہ اسلامی مرجعیت نے بھی اتحاد امت کی بات کی۔

اتحاد امت کی پالیسی پر شروع سے گامزن
پاکستان کی شیعہ اسلامی قیادت بھی نظام ولایت فقیہ و نظام مرجعیت کے تابع اسی اتحاد امت کی پالیسی پر شروع سے گامزن رہی ہے۔ خواہ مفتی جعفر حسین ہوں یا علامہ عارف حسینی۔ خواہ علامہ سید ساجد علی نقوی ہوں یا علامہ راجہ ناصر عباس جعفری۔ اتحاد امت کے عنوان سے انکا موقف اور عمل بالکل واضح ہے۔

اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویر
زیادہ دور نہیں جائیں پچھلے چند برسوں کا جائزہ لے لیں کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت باسعاد ت کی مناسبت سے ماہ ربیع الاول میں جشن عید میلادالنبی ﷺ منانے میں شیعہ اسلامی قیادت پیش پیش رہی کہ نہیں!؟ مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائریشن سمیت متعدد شیعہ جماعتوں اور کارکنوں نے اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویر پیش کردی۔

اتحادامت میں رکاوٹ کا اصلی سبب
یہ وہ حقائق ہیں کہ جن سے نظر چرانے کی بجائے انہیں کھلے دل سے تسلیم کرکے شیعہ اسلامی قیادت اور کارکنوں اور عام شیعہ مسلمانوں کے اس نیک عمل کو سراہنے کی ضرورت ہے۔ اور جو مسلک جو فرقہ تنگ نظر متعصب ہے، دہشت گرد ہے، اسکا نام لے کر اسے اتحادامت میں رکاوٹ کا اصلی سبب قرار دینا چاہیے۔

جو مسلک فرقہ تنگ نظر متعصب دہشت گرد ہے، اسکا نام لیں
عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اگر معاملہ مسلکی انتہاپسندی، فرقہ پرستانہ تعصبات، تکفیریت اور نفرتوں کو پھیلانے کا ہے تو اس معاملے میں جو فرقہ اور مسلک ملوث ہے، اس کا نام لیا جانا چاہیے۔ اور اگر کسی میں ان بد بختوں کا نام لینے کی ہمت نہیں تو انہیں یا تو خود میں اتنی جرات پیدا کرنی چاہیے اور اگر ہمت و جرات پیدا نہیں کرسکتے تو خاموشی سے کوئی کونا پکڑ کر بقیہ زندگی توبہ میں گذارنی چاہیے۔

اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ
یہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگلا اپنا عقیدہ و نظریہ چھوڑ کر دوسرا عقیدہ و نظریہ قبول کرلے۔ بعد از ختم نبوت حضرت امیر المومنین مولا ئے متقین حضرت علی بن ابو طالب کو امت کا دینی و دنیاوی بلکہ ہر شعبے کا پیشوا،قائد اور رہبر ماننے والے کو شیعہ کہا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے اتحاد کے داعی شیعہ مسلمان
اور شیعہ اسلام میں ام المومنین بی بی خدیجۃ الکبریٰ امہات المومنین میں مرکزی اور ممتاز مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔ خاتون جنت بی بی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شیعہ اسلام میں جنتی خواتین کی سردار اور نظام ولایت کی سیدہ و سالار بی بی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

سانحہ مچھ کے بعد شیعہ اسلامی قیادت کا کردار
بعد از مولا امیر المومنین، شیعہ اسلام امام حسن علیہ السلام کو امت کا قائد، رہبر، ہادی، رہنما مانتا ہے۔ انکے بعد امام حسین علیہ السلام اور انکے بعد انکی اولاد میں امام مہدی علیہ السلام تک جو انکے جانشین ہیں، انہیں امام ماننے والے کو ہی اثناعشری شیعہ کہتے ہیں۔ توحید، عدل، نبوت، امامت، قیامت، ان عنوانات کے تحت اصول دین پر ایمان رکھنے والا شیعہ مومن کہلاتا ہے۔
اصل مسئلہ مسلمانوں کے وہ مولوی اور انکے پیروکار ہیں
ہم یہ تحریر لکھنے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ ان کھلے حقائق سے نظرچراتے ہوئے مولوی جواد نقوی صاحب نے ایک ایسی تقریر کی کہ جو زمینی حقائق سے کھلے انکار کے مترادف ہے۔ اصل مسئلہ مسلمانوں کے وہ مولوی اور انکے پیروکار ہیں جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی میلاد مسعود کی مناسبت سے خوشیاں منانے میں شریک نہیں ہوتے بلکہ اس پر بھی فتوے لگاتے ہیں۔

مسئلہ وہ بھی ہیں کہ جو کافر کافر کے نعرے لگاتے ہیں
اور اصل مسئلہ وہ بھی ہیں کہ جو کافر کافر کے نعرے کھلے عام لگاتے ہیں۔ اتحاد امت کی راہ میں اصل رکاوٹ یہ ٹولے اور انکے سرغنہ ہیں۔ یہ محرم اور صفر میں غم کی مجالس اور جلوسوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں، نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ اور انہی میں سے بعض اٹھارہ ذی الحج اور یکم محرم کو جلوس بھی نکالتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ تکفیری منافقین بھی ہیں اور وہ بھی جو انکی اس کھلی منافقت اور تفرقہ انگیز کاررائیوں پر خاموش رہتے ہیں۔

سعودی بادشاہت کا دفاع کرنے والے منافق
رواں برس ماہ محرم میں اور ماہ صفر میں جس جس نے شیعہ اسلام کی مسلمہ روایات کے خلاف زہر اگلا، یہ لوگ تفرقہ ڈالنے والے ہیں۔ حجاز مقدس مکہ و مدینہ میں اسلامی ورثے، مزارات مقدسہ اور مساجد کو مسمار و منہدم کرنے والی سعودی بادشاہت کے خلاف پچھلے چالیس برسوں سے خاموش رہنے والے بلکہ اس ناصبی بادشاہت کا دفاع کرنے والے منافق تفرقہ ڈالتے ہیں۔

سعودی و اماراتی یہودی نسل پرست اسرائیل کے ساتھ مل چکے ہیں
شیعہ تو بیت المقدس کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں جبکہ یہ سعودی و اماراتی یہودی نسل پرست اسرائیل کے ساتھ مل چکے ہیں۔ یہ سب مل کر مسلمانوں کو یمن میں ماررہے ہیں۔ انہوں نے لبیا میں قذافی کی حکومت ختم کرنے کے لیے وہاں کے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ پاکستان سے عراق و شام تک انہی کے پالتو تکفیری دہشت گرد، دہشت گردی کررہے ہیں۔ تفرقہ یہ پھیلارہے ہیں۔

کس اصول کے تحت یہ صحابہ کی یا تین خلفاء کی بات کرتے ہیں
یہ کس اصول کے تحت یہودیوں سے جاملے۔ کس اصول کے تحت یہ صحابہ کی یا تین خلفاء کی بات کرتے ہیں۔ یہ تو خود خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت پر جھوٹے الزمات لگاکر نفرتیں اور تفرقہ ایجاد کرتے آرہے ہیں۔ بلکہ شیعہ نسل کشی کی بنیادی وجہ انکی یہی تکفیریت ہے۔

شیعہ مسلمانوں پرتنقید ان قاتل دہشت گردوں کی مدد کے مترادف ہے
مظلوم شیعہ مسلمانوں شیعہ مسلمانوں پرتنقید ان قاتل دہشت گردوں کی مدد کے مترادف ہے کہ جو اس ملک میں شیعہ نسل کشی، مساجد و امام بارگاہوں اور مزارات پر ایک فرقہ اعلانیہ خود کش بمبار بھیج کر دہشت گردانہ حملے اور دھماکے کرتے ہیں۔

ہمارا پیغام مولوی جواد نقوی سمیت سبھی کے لیے صرف ایک ہے

کی محمد ﷺ سے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button