جنت البقیع ویران کیوں؟
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)
مختصر تاریخ
جنت البقیع کا پرانا نام "بقیع الغرقد” تھا۔ بقیع یعنی مختلف درختوں کا باغ اور غرقد ایک مخصوص قسم کے جھاڑی نما درخت کو کہتے ہیں، جو پہلے اس جگہ کثیر تعداد میں تھا، اسی وجہ سے یہ نام پڑ گیا۔ امام حاکم کی مستدرک میں موجود روایت روایت کے مطابق اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بقیع کی جگہ قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا۔ اسلام کے اس پہلے اور عظیم قبرستان کا باقاعدہ آغاز رسول خدا کے باوفا اصحاب؛ انصار مدینہ کے اسعد بن زرارہ اور عثمان بن مظعون کے دفن سے ہوا۔ عام مسلمانوں کی اہم ترین کتاب صحیح مسلم اور سنن نسائی میں جنت البقیع کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ ”خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ بقیع جاؤں اور اہل بقیع پر سلام اور طلب مغفرت کروں۔“ پھر اس سے مربوط دعا بھی اسی روایت میں موجود ہے۔
”چونکہ اوائل اسلام میں اکثر مسلمانوں کے آبا و اجداد کافر یا مشرک مرے تھے، اس لیے بعض روایت کے مطابق ان کی قبور پر جانے سے رسول خدا نے منع کیا تھا۔” جب آپﷺ کے خاص چاہنے والوں اور شمع رسالت کے پروانوں کا انتقال ہوا یا ان کی شہادت ہوٸی، تب رسول خدا نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ قبور کی زیارت کے لیے جائیں۔ ان کو سلام کریں، ان کے لیے اور اپنے لیے قبرستان جا کر طلب مغفرت کریں اور اپنی موت و آخرت کو یاد کریں۔” اس سلسلے میں بہت ساری احادیث؛ قبور کی زیارت کے آداب، فضائل اور فلسفہ احادیث کی مستند سمجھی جانے والی قدیمی کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں اہل سنت کی صحاح ستہ میں سے صحیح مسلم، صحیح ابن ماجہ، سنن ابن داود، سنن ترمذی، نسائی اور ابن حجر عسقلانی کی کتابیں مشہور و معروف ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔
جنت البقیع میں اوائل اسلام کی عظیم شخصیات کی قبور ہیں، جن میں حضرت رسول خدا کے فرزند جناب ابراہیم، حضرت علی (ع) کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت عبداللہ ابن جعفر طیار، حضرت عباس ابن عبدالمطلب، حضرت ام البنین، حضرت حلیمہ سعدیہ، امہات المومنین میں سے حضرت ام سلمہ، حضرت حفصہ بنت عمر، حضرت ام حبیبہ، حضرت زینب، حضرت ریحانہ، حضرت ماریہ قبطیہ وغیرہ یہاں دفن ہیں۔ احد کے کٸی شہدا ٕ اور واقعہ حَرّا کے شھدا ٕ بھی یہاں دفن ہیں۔ بعض روایت کے مطابق رسول خدا کی اکلوتی بیٹی، قرة عین الرسول؛ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی قبر مبارک بھی اسی ویرانے میں موجود ہے۔ مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ حضرت عثمان جو کہ پہلے بقیع کے باہر دفن تھے، اب وہ بھی بقیع کی احاطہ کے اندر ہیں۔
”بیت الحزن“ جو کہ حضرت علی (ع) نے بعض مدینہ والوں کی طرف سے حضرت فاطمہ کی اپنے بابا حضرت محمدﷺ کی فراق میں زیادہ گریہ کرنے کے سبب شکایت کرنے پر مدینہ سے باہر فقط رونے کے لیے جو جگہ بنائی تھی، وہ بھی اب جنت البقیع کا حصہ ہے۔ حضرت علی (ع) کے بھائی جناب عقیل کا ذاتی گھر جس میں بعد میں ہمارے آئمہ اربعہ نواسہ رسول امام حسن (ع)، امام سجاد (ع)، امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) دفن ہوئے، وہ بھی اسی جنت البقیع میں ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں رسول خدا کے باوفا اصحاب کرام، تابعین کرام، امہات المومنین اور اسلام کے ابتداٸی شہداء کی قبور مبارک یہاں موجود ہیں۔
جنت المعلّٰیٰ
مسلمانوں کا دوسرا اہم ترین اور قدیمی قبرستان جنت المعلّٰیٰ ہے، جو کہ مکہ شریف میں واقع ہے۔ جہاں رسول خدا کی پہلی اور چہیتی بیوی جس نے صنف نسواں میں سب سے پہلے نہ فقط ایمان لے آئی بلکہ عرب کی مالدار خاتون ہونے کی وجہ سے اپنا تمام تر مال و دولت رسول خدا کے سپرد کیا، تاکہ اس سے ضعیف اور نادار مسلمانوں کی مدد کرسکیں، یعنی ام المومنین حضرت خدیجہ (س) کی قبر مبارک ہے. یہاں دوسری اہم شخصیت حضرت ابو طالب جو سپر بن کر رسول خدا کی حفاظت کرتے رہے، بالخصوص اس وقت جب ابوسفیان اور اس وقت کے دیگر کفار و مشرکین نے سوشل بائیکاٹ کرتے ہوئے شعب ابی طالب میں رسول خدا ور ان کے حقیقی چاہنے والوں اور آپ کے قریبی رشتہ داروں کا ہر طرف سے محاصرہ کر رکھا تھا تو یہی ابو طالب، رسول خدا کا ساتھ دیتے ہوئے، حفاظت کرتے ہوئے، ابوسفیان اور دیگر سے مقابلہ کرتے رہے، اسلام کے ایسے ایسے گوہر نایاب اور رسول خدا کی حقیقی بے لوث و باوفا شخصیات یہاں دفن ہیں۔
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جس سال ام المٶمنین حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب کا انتقال ہوا تو رسول خدا نے اس سال کو ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال قرار دیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد پھر مکہ رہنے کے قابل نہ رہا اور آپ (ص) نے وہاں سے ہجرت کی۔ مدینہ مبارکہ میں حضرت رسول خدا کے چچا سید الشہداء، جناب حمزہ جن کا جگر ابو سفیان کی بیوی (معاویہ کی ماں، یزید کی دادی ہندہ نے چبایا تھا)۔ وہ اور جنگ احد کے دیگر شہداء کی قبور بھی ویرانے کی شکل میں یہاں موجود ہیں۔ صحاح ستہ کی بعض روایتوں کے مطابق حضرت رسول خدا نہ فقط حضرت حمزہ سیدالشہداء پر گریہ کیا بلکہ مدینہ کی عورتوں سے بھی فرمایا کہ وہ جناب حمزہ پہ ماتم کریں۔ اسلام کے ان عظیم جانثاروں اور محافظوں کی قبور پر نہ فقط رسول خدا خود تشریف لے جاتے اور ان کے لیے دعا کیا کرتے بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی جانے کی تلقین کرتے اور زیارت کے آداب سکھایا کرتے تھے۔
جنت البقیع کی جدید تعمیر
رفتہ رفتہ شمع رسالت کے پروانوں نے اسلام کی ان عظیم شخصیات کی قربانیوں اور ان کے کارناموں کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لیے ”جنت البقیع اور جنت المعلیٰ کی ان قبور پر گنبد اور حجرہ بنوائے تھے۔ ساتویں صدی ہجری میں عمر بن جبیر نے اپنے مدینہ کے سفر میں جنت البقیع میں مختلف قبور پر قبوں اور گنبدوں کا ذکر کیا ہے۔ پھر ایک سو سال بعد ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں ان قبّوں اور گنبدوں کا ذکر کیا ہے۔ کئی صدیوں تک یہ مزارات عالم اسلام کے لیے باعث تعظیم اور ایمان کی تازگی کا باعث بنے رہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں بھی چونکہ یہاں محمد و آل محمد کے عاشقوں یعنی اہل سنت بھائیوں کی حکومت تھی تو ان مزارات کی رونق بھی تھی۔
انہدام کے اسباب
پھر انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اسلام دشمنوں نے دین اسلام کو دنیا سے ختم کرنے کی ایک عالمی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا، جس کے تحت برصغیر میں مرزائیت یا قادیانیت، ایران میں بہائیت، سوڈان میں مھدویت، لیبیا میں سنوسی، نائجیریا میں فلافی، انڈونیشیا میں پادری جبکہ حجاز میں وہابیت کو باقاعدہ منظم انداز میں فروغ دینا شروع کیا۔ محمد ابن عبدالوہاب جو کہ پیدائشی حنبلی تھا، مدینہ منورہ میں ابتدائی تعلیم کے بعد بغداد، بصرہ، دمشق، ہمدان اور قم میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ بعد میں قرآن و حدیث میں ذاتی نظریات کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان مسلمہ عقائد کے خلاف بولنے لگا، جس پر اہلسنت علماء نے ان کو اپنی درسگاہ اور علاقوں سے نکال دیا تو یہ سرزمین نجد چلا گیا۔
اس وقت محمد بن سعود اپنے قبیلہ کا سربراہ اپنی مختصر سلطنت کو وسعت دینے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ دونوں کی ملاقات میں کافی ہم آہنگی ہوئی۔ اسی دوران برطانیہ سلطنت عثمانیہ اور مسلمانوں کو زمینی و عقائدی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی پالیسی پہ گامزن تھا۔ لہذا انہوں نے محمد بن سعود کو ہر طرح کی مدد کا وعدہ کیا اور ان کی پشت پناہی کے سبب محمد بن سعود نے نجد سے حجاز تک فتح کرلیا اور ان کی حکومت قائم کی۔ برطانیہ نے یہاں تک طے کرکے دیا کہ حکومت آل سعود کی، جبکہ قضاوت و مذہبی عہدے آل وہاب کے ہونگے، یہ کبھی ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے۔ آقا کے اس فیصلے پر ان کی نسلیں اب بھی کاربند اور ان کی جی حضوری و نمک حلالی میں مصروف و مگن ہیں۔ ان لوگوں نے مدینہ و مکہ میں شیعہ علماء کے علاوہ ایک دن میں پانچ سو کے قریب اہل سنت کے جید علماء کرام کو قتل کیا۔(یہ باتیں میں نے سنی تحریک کے سربراہ شہید سلیم قادری کے منہ سے سنی ہیں، جو مستند حوالہ کے ساتھ بتا رہے تھے)
یوں محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود اور برطانوی حمایت سے حجاز سے سنیوں کا صفایا کرکے وہابیت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ محمد بن سعود کا اصل نام محمد ہونے کے باوجود سرزمین وحی کو محمدیہ رکھنے کے بجائے سعودیہ رکھ دیا۔ محمد بن عبدالوہاب کا نام محمد ہونے کے باوجود ان کے خود ساختہ مکتب کو بھی محمدیہ کے بجائے باپ کے نام پر وہابی رکھ دیا آخر کیوں۔؟ یہ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ 8 شوال 1344 ہجری بمطابق 21 اپریل 1926ء کو محمد بن سعود نے محمد بن عبدالوہاب کے فتویٰ پر جنت البقیع میں موجود انبیاء، اوصیاء، آئمہ، اصحاب کرام اور امہات المومنین کے گنبد اور بنے ہوئے مزارات کو منہدم کردیا۔۔۔ یعنی یہ صدر اسلام کی کسی بھی نشانی کو باقی رکھنا نہيں چاہتے تھے۔ پس وہ مزارات و قبور جو تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال سے مسلمانوں کو صدر اسلام کے جانثاروں اور وفاداروں کی بے لوث قربانیوں کی یاد دلاتے تھے، جن کی زیارت سے مسلمانوں کا ایمان تازہ ہوا کرتا تھا۔ جو شعائر الہیٰ کے مصادیق میں سے کچھ مصداق بنے ہوئے تھے، انہیں ڈھا دیا گیا۔
جدّہ شہر جو کہ ہماری جدہ ماجدہ حضرت حوا کے مزار کی وجہ سے نام پڑگیا تھا، اب تو اسے بھی شہید کیا جا چکا ہے، جبکہ یہ سب بھی شعائر اللہ میں سے تھے، جنہیں دیکھ کر خدا اور خدا کے رسول یاد آتے تھے۔ خدا نے قرآن مجید میں سورہ حج اور سورہ مائدہ میں قربانی کے اونٹ اور دیگر جانوروں، صفا و مروہ کی پہاڑیوں، محترم مہینوں، خدا کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آنے والے حاجیوں کو بھی ”شعائر اللہ“ کہا ہے اور ان شعائر کی توہین کرنے سے منع کیا ہے، مگر افسوس وہابیوں، نجدیوں نے ان تمام شعائر اسلام کو ڈھا دیا اور ویران کر دیا۔ بسا اوقات حاجیوں کو بھی نہیں بخشا، جبکہ یہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں تھا۔ اوائل اسلام سے اب تک جہاں جہاں بھی اسلام پہنچا ہے، مصر سے سوڈان تک، اسپین سے ہندوستان تک، فلسطین سے چین تک آپ کو اولیاء اللہ کے مزارات ملیں گی۔
اہل سنت آٸمہ اربعہ کے مزارات
جس ابن تیمیہ کے نظریات پر عبد الوہاب نے بنا رکھی ہے، اس ابن تیمیہ کا مزار آج بھی شام کے شہر دمشق میں، امام احمد ابن حنبل کا مزار عراق کے شہر بغداد میں، امام شافعی کا مزار مصر کے شہر قاہرہ میں جبکہ امام ابو حنیفہ کا مزار عراق کے شہر بغداد میں موجود ہیں، مگر جنت البقیع اور جنت المعلیٰ ویران ہیں۔
عالم اسلام سراپا احتجاج
جس وقت جنت البقیع کو ڈھایا گیا، تمام عالم اسلام سراپا احتجاج بن گیا۔ ترکی میں اتاترک اور نجدیوں کے ذریعے خلافت عثمانیہ کے ظاہری اور نام کی حد تک موجود ہی سہی اس نشانی کو بھی ختم کیا تو برصغیر کے تمام مسلمان تحریک خلافت چلا رہے تھے تو اسی دوران خلافت کمیٹی بنائی گئی۔ مولانا محمد علی جوہر نے برصغیر کے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے نجد کے حاکم کو احتجاجی خط بھی لکھا۔ مسلمانان عالم کے احتجاج اور قطیف کے شیعوں کا بروقت مدینہ پہنچنے اور مزاحمت کرنے کی وجہ سے رسول خدا کا روضہ مبارک شھید ہونے سے تو بچ گیا، مگر آج بھی کسی کو وہاں جالی کو چھونے یا عقیدت سے چومنے نہیں دیتے۔ قطیف کے شیعہ ابھی تک رسول خدا کے روضے کو بچانے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
موجودہ سعودی عرب اور مقدس مقامات
اگرچہ آج سعودی عرب بدل چکا ہے، سرزمین وحی میں عالیشان بت خانے غیر مقامی ہندوٶں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ لبرل ازم کے نام پر سینکڑوں مے خانے اور جوا خانے کھول دیئے گئے ہیں۔ ہولی سے لے کر کرسمس تک کی آزادی ہے، مگر مسلمانوں کو اجازت نہیں کہ وہ رسول خدا کے مزار کی جالی چومیں، ہمارے آئمہ اربعہ کی قبر پر فاتحہ پڑھیں، حضرت حلیمہ سعدیہ کی قبر پر سلام کریں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ کی قبر پر جا کر ان کی بے لوث قربانیوں کو یاد کریں۔ سید الشہداء حضرت امیر حمزہ کی قبر پر جا کر خراج تحسین پیش کریں۔۔۔ افسوس۔۔۔ عبد الوہاب کے فتویٰ اور محمد بن سعود کے ظلم کی سبب آج بھی لاکھوں کروڑوں عاشقان رسول، عاشقان اہلبیت، عاشقان صحابہ کرام اور عاشقان امہات المومنین کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ خدا ان عاشقوں، محب اہلبیت سنیوں یا دین کا درد رکھنے والے اخوان المسلمین یا کسی بھی مسلمان کے ہاتھوں ان مزارات کی تعمیر کرنے اور ہم سب مسلمانوں کو ان زیارت گاہوں کی زیارت کرنے کی توفیق عطا فرماٸے، آمین ثم آمین۔
تحریر: محمد بشیر دولتی