جابر بن عبداللہ انصاری پہلا زائر اربعین حسینی
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ صحابی ہیں, جنھوں نے دوسری بیعت عقبہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ کثیر الحدیث صحابی اور حدیث لوح کے راوی ہیں۔ حدیث لوح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک کو ذکر فرمایا ہے۔ جابر کے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے, جنہيں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عبد اللہ نے مدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشش کی۔ ابن کثیر دمشقی جابر کے والد عبداللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا وند آپ کو اے انصار جزائے خیر دے خصوصا العمرو بن حرام (جابر کا کنبہ) اور سعد بن عبادہ کو۔۱۔ عبداللہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔۲۔
جابر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جنگوں اور اہم واقعات میں موجود تھے، جیسے، غزوہ بنی مصطلق، غزوہ احزاب، غزوہ بنی قریظہ، صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر، سریہ خبط، فتح مکہ، محاصرہ طائف اور غزوہ تبوک۔۳۔ مورخین اور محدثین نے جابر بن عبد اللہ انصاری کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ذکر کیا ہے، جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں ایمان لانے والوں میں سے سب سے پہلے قرار دیتے ہیں۔۴۔ شیخ مفید نے جابر کو ان اصحاب کی فہرست میں شامل کیا جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین بلافصل سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق، ابو زبیر مکی (جو جابر کے شاگردوں میں سے تھے) نقل کرتا ہے کہ میں نے جابر کو مدینہ میں انصار کے محلوں اور ان کے محافل میں عصا ہاتھوں میں لئے گھومتے ہوئے دیکھا جبکہ وہ یہ کہ رہے تھے کہ اے گروہ انصار، اپنے فرزندوں کی تربیت حب علی علیہ السلام کے ساتھ کیا کرو اور جو اس سے انکار کرے تو اس کی ماں کے کردار کا جائزہ لو۔۵۔
ایک دن امام باقر علیہ السلام نے جابر سے حضرت عائشہ اور جنگ جمل کے بارے میں پوچھا۔ جابر نے جواب دیا کہ ایک دن میں عائشہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ علیؑ بن ابی طالب کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور ایک لمحے کے بعد سر اٹھا کر یہ اشعار پڑھنا شروع کیے، جب سونے کو جلایا جاتا ہے، تو اس سے ساری ملاوٹیں اور ناخالصی نکل جاتی ہے، ہم انسان بھی خالص اور ناخالص ہیں، علیؑ ہمارے درمیان ایک معیار ہے، جو کھرے اور کھوٹے کو سرے سے الگ کرتا ہے۔۶۔ جابر کہتے ہیں کہ ہم بصرہ میں امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ تھے، جنگ ختم ہوگئی اور میں رات کو اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا تم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہو؟ میں نے کہا کہ ہم دنیا کی برائی کر رہے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا، جابر! دنیا کی برائی کیوں کر رہے ہو؟ اس کے بعد آپؑ نے خدا کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد دنیا کے فوائد پر گفتگو کی اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان لے گئے اور مرنے والوں کے بارے میں بات کی۔۷۔ اسی طرح جنگ صفین اور نہروان میں بھی جابر امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں رہے۔ نہروان سے واپس آتے وقت جو واقعہ پیش آیا تھا جابر نے اسے بھی نقل کیا ہے۔ ۸۔
کتاب وقعہ الصفین جو قدیم کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، جابر بن عبد اللہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معاویہ اس حالت میں مرے گا کہ وہ میری امت میں شامل نہیں ہوگا۔۹۔ معاویہ کے بارے میں جابر کا موقف اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ جابر نے اس حدیث کو مستقیما اور کسی واسطہ کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔ اسی طرح یہ واقعہ بھی جابر کے موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آخری سال میں معاویہ نے تین ہزار افراد کو بسر بن ارطاۃ کی سربراہی میں مدینہ بھیجا اور بسربن ارطاۃ سے کہا کہ مدینہ جاو اور وہاں افراد کو منتشر کرو۔ تم جہاں بھی جاو لوگوں کو ڈراؤ۔ جو ہماری اطاعت سے انکار کرے، ان کے اموال کو لوٹ لو، اور اہل مدینہ کو ڈرا کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کرو کہ ان کے پاس اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لشکر معاویہ جب مدینہ پہنچا تو انہوں نے معاویہ کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا۔ مدینہ کے لوگوں کو جنگی سہولیات اور افراد کی کمی کا سامنا ہوا۔ جس کی وجہ سے بیعت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ملا۔ قبیلہ بنی سلمہ جو جابر کا رشتہ دار تھا، بھی بیعت کے لئے بسر بن ارطاۃ کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا کہ جابر بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔
اس نے کہا جب تک جابر ان کے ساتھ نہیں آتا تب تک ان سے بیعت نہیں لوں گا۔ جابر کہتے ہیں میں ڈر گیا، اس لئے وہاں سے بھاگ گیا۔ لیکن بسر نے بنی سلمہ جابر کے قبیلہ والوں سے کہا کہ جب تک کہ جابر خود نہ آئے کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے، میرے رشتہ دار میرے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم ہمارے ساتھ چلو اور اپنی جان اور اپنے رشتے داروں کے جانوں کی حفاظت کرو، کیونکہ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو ہمارے لوگ مارے جائیں گے اور ہمارے اہل خانہ کو اسیر کیا جائے گا۔ جابر نے ایک رات سوچنے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے چلا گیا، تو انہوں نے جابر سے کہا کہ اس کی بیعت کرو اور اپنی اور رشتہ داروں کی جان بچاو، اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ بیعت، بیعت ضلالت ہے۔ یہ تقیہ ہی تھا جس نے اصحاب کہف کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند گردن میں صلیب لٹکائیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کریں۔۱۰۔ بعض روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جابر کا رابطہ ہمیشہ دوستانہ اور محبت آمیز تھا۔
ایک دفعہ جابر بیمار پڑ گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے اس وقت تشریف لے گئے، جب وہ اپنی تندرستی سے مایوس ہوچکے تھے۔ جابر نے بہنوں کے درمیان ترکے کی تقسیم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں یہ آیت) يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّہُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَكَ لَيْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّہَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ)، (لوگ آپ سے (کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے کہ اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گا، اور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے)۔۱۱۔ نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے۔۱۲۔
جابر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایات نقل کی ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل، اور ابو سعید خدری ان اصحاب میں سے ہیں جن سے جابر نے روایات نقل کی ہے۔۱۳۔ جابر اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ انھوں نے ایک صحابی رسول سے براہ راست حدیث رسول سننے کے لئے شام کا سفر اختیار کیا۔۱۴۔ اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔۱۵۔ وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے۔ مشہور شیعہ احادیث کی اسناد میں جابر کا نام ذکر ہوا ہے۔ ان مشہور احادیث میں حدیث غدیر،۱۶۔ حدیث ثقلین، ۱۷۔ حدیث انا مدینه العلم ،۱۸۔ حدیث منزلت، ۱۹۔ حدیث رد الشمس،۲۰۔اور حدیث سد الابواب ۲۱۔ شامل ہیں۔ اسی طرح جابر ان احادیث کے بھی راوی ہیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد بارہ ائمہ کے اسمائے گرامی بیان فرمائے ہیں۲۲۔ اور حضرت مہدی (عج) کی خصوصیات متعارف کرائی ہیں۔۲۳۔ حدیث لوح ان مشہور احادیث میں سے ہے جو جابر نے نقل کی ہے اور ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ائمۂ اثناعشر کے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔۲۴۔
شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔ ۲۵۔ واقعۂ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جابر بن عبداللہ انصاری مدینے کے معمر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے لئے فکرمند تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے بھیجے گئے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے جابر بن عبداللہ کا نام اپنے مدعا کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔۲۶۔ عاشورہ کے دن جب امام نے دشمن سے مخاطب ہو کر خطبہ دیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں فرمایا کہ یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صحیح نہیں تو کچھ اصحاب ہیں ان سے پوچھو جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو سعید خدری وغیرہ.۲۷۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے کچھ دن بعد ہی جابر بن عبد اللہ انصاری نے کربلا کا سفر شروع کیا۔ یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم اور سفاک افراد نے بھی اسے اس سفر سے نہیں روکا۔ جابر کے ساتھ اس سفر میں اس کا شاگرد عطیہ عوفی بھی تھا۔ شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر قرار دیا ہے، جو ۲۰ صفر ۶۱ ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔۲۸۔ طبری اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا: عن عطیّة العوفی: خَرَجتُ مَعَ جابِرِ بنِ عَبدِ اللّه ِ الأَنصارِیِّ زائِرَینِ قَبرَ الحُسَینِ بنِ عَلِیِّ بنِ أبی طالِبٍ علیه السلام، فَلَمّا وَرَدنا کَربَلاءَ دَنا جابِرٌ مِن شاطِئِ الفُراتِ فَاغتَسَلَ، ثُمَّ اتَّزَرَ بِإِزارٍ وَارتَدى بِآخَر، ثُمَّ فَتَحَ صُرَّةً فیها سُعدٌ فَنَثَرَها عَلى بَدَنِه، ثُمَّ لَم یَخطُ خُطوَةً إلّا ذَکَرَ اللّه َ تَعالى. حَتّى إذا دَنا مِنَ القَبرِ قال: ألمِسنیهِ فَأَلمَستُهُ فَخَرَّ عَلَى القَبرِ مَغشِیّا عَلَیهِ فَرَشَشتُ عَلَیهِ شَیئا مِنَ الماءِ فَلَمّا أفاقَ قال: یا حُسَینُ ثَلاثا ثُمَّ قال: حَبیبٌ لا یُجیبُ حَبیبَهُ. ثُمَّ قال: وأنّى لَکَ بِالجَوابِ وقَد شُحِطَت أوداجُکَ عَلى أثباجِک، وفُرِّقَ بَینَ بَدَنِکَ ورَأسِک، فَأَشهَدُ أنَّکَ ابنُ خاتَمِ النَّبِیّین وَابنُ سَیِّدِ المُؤمِنین وَابنُ حَلیفِ التَّقوى وسَلیلِ الهُدى وخامِسُ أصحابِ الکِساءِ وَابنُ سَیِّدِ النُّقَباءِ وَابنُ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ النِّساءِ وما لَکَ لا تَکونُ هکَذا وقَد غَذَّتکَ کَفُّ سَیِّدِ المُرسَلین ورُبّیتَ فی حِجرِ المُتَّقین ورُضِعتَ مِن ثَدیِ الإِیمانِ وفُطِمتَ بِالإِسلام فَطِبتَ حَیّا وطِبتَ مَیِّتا غَیرَ أنَّ قُلوبَ المُؤمِنینَ غَیرُ طَیِّبَةٍ لِفِراقِک ولا شاکَّةٍ فِی الخِیَرَةِ لَکَ فَعَلَیکَ سَلامُ اللّه و رِضوانُهُ وأشهَدُ أنَّکَ مَضَیتَ عَلى ما مَضى عَلَیهِ أخوکَ یَحیَى بنُ زَکَرِیّا.
میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادر پہنی، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اور اپنے آپ کو اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم اٹھانا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ حسینؑ ابن علیؑ کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابر نے کہا کہ میرا ہاتھ قبر حسینؑ پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا۔ اس نے قبر حسینؑ ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب میں نے اس کے اوپر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسینؑ کی آواز بلند کی اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبه) کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھر جابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپؑ کے مقدس سر کو جسم سے جدا کیا گیا ہے؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہؑ زہرا کے فرزند ہیں اور آپؑ اس طرح کیوں نہ ہوں، کیونکہ خدا کے رسولؑ نے اپنے دست مبارک سے آپؑ کو غذا دی ہے اور نیک لوگوں نے آپؑ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپؑ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے، اگرچہ مومنین آپؑ کی شہادت سے محزون ہیں، سے نالاں ہیں، خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ کو ایسی شہادت نصیب ہوئی، جیسے یحییٰ بن زکریا کو نصیب ہوئی تھی۔
ثُمَّ جالَ بِبَصَرِهِ حَولَ القَبرِ وقال: السَّلامُ عَلَیکُم أیَّتُهَا الأَرواحُ الَّتی حَلَّت بِفِناءِ الحُسَینِ وأناخَت بِرَحلِهِ وأشهَدُ أنَّکُم أقَمتُمُ الصَّلاةَ وآتَیتُمُ الزَّکاةَ ، وأمَرتُم بِالمَعروفِ ونَهَیتُم عَنِ المُنکَرِ وجاهَدتُمُ المُلحِدین وعَبَدتُمُ اللّه َ حَتّى أتاکُمُ الیَقینُ. وَالَّذی بَعَثَ مُحَمَّدا بِالحَقِّ نَبِیّا لَقَد شارَکنا کُم فیما دَخَلتُم فیهِ. قالَ عَطِیَّةُ: فَقُلتُ لَهُ: یا جابِرُ ! کَیفَ ولَم نَهبِط وادِیا ولَم نَعلُ جَبَلاً ولَم نَضرِب بِسَیفٍ وَ القَومُ قَد فُرِّقَ بَینَ رُؤوسِهِم وأبدانِهِم، واُوتِمَت أولادُهُم و أرمَلَت أزواجُهُم ؟! فَقال: یا عَطِیَّةُ ! سَمِعتُ حَبیبی رَسولَ اللّه ِصلى الله علیه و آله یَقولُ: مَن أحَبَّ قَوما حُشِرَ مَعَهُم و مَن أحَبَّ عَمَلَ قَومٍ اُشرِکَ فی عَمَلِهِم وَالَّذی بَعَثَ مُحَمَّدا بِالحَقِّ نَبِیّا إنَّ نِیَّتی ونِیَّةَ أصحابی عَلى ما مَضى عَلَیهِ الحُسَینُ علیه السلام وأصحابُهُ خُذوا بی نَحوَ أبیاتِ کوفانَ۔ اس کے بعد جابر نے سید الشہداء علیہ السلام کے اطراف میں موجود قبروں کی طرف دیکھا اور کہا کہ سلام ہو، آپؑ لوگوں پر اے پاکیزہ ہستیاں کہ آپؑ لوگوں نے حسین ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کی اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں۔
عطیہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر سے پوچھا کہ ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں، جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے، نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لی ہے، نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہے، لیکن ان لوگوں کے سروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے، ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اور ان کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں؟۔ جابر نے مجھے جواب دیا کہ اے عطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر کوئی کسی گروہ کو چاہتا ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور ہوں گے، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کا ارادہ بھی وہی ہے، جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا۔ پھر اس کے بعد جابر نے کہا کہ میرا ہاتھ پکڑو اور مجھے کوفہ کی طرف لے چلو۔ فَلَمّا صِرنا فی بَعضِ الطَّریقِ قالَ: یا عَطِیَّةُ ! هَل اُوصیکَ وما أظُنُّ أنَّنی بَعدَ هذِهِ السَّفَرَةِ مُلاقیک؟ أحبِب مُحِبَّ آلِ مُحَمَّدٍ صلى الله علیه و آله ما أحَبَّهُم وأبغِض مُبغِضَ آلِ مُحَمَّدٍ ما أبغَضَهُم وإن کانَ صَوّاما قَوّاما، وَارفُق بِمُحِبِّ مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ ، فَإِنَّهُ إن تَزِلَّ لَهُ قَدَمٌ بِکَثرَةِ ذُنوبِهِ ثَبَتَت لَهُ اُخرى بِمَحَبَّتِهِم ، فَإِنَّ مُحِبَّهُم یَعودُ إلَى الجَنَّةِ ، ومُبغِضَهُم یَعودُ إلَى النّارِ.
جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے، اے عطیہ! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو، جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمدؑ کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتے ہیں، گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہو اور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمدؑ کے چاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آؤ، کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمدؑ کی محبت کی وجہ سے مضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک آل محمدؑ کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے، جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ ۲۹۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز پر آپؑ کے اصحاب کی تعداد بہت کم تھی اور جابر ان ہی انگشت شمار اصحاب میں شامل تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے حجاج بن یوسف ثقفی کے تعاقب سے محفوظ تھے۔۳۰۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جابر بن عبداللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا کہ اے جابر، تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے ایک فرزند کا دیدار کرو گے، جو میرے ہم نام ہوں گے، وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے، یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے، جیسا کہ تشریح و تجزیہ کا حق ہے۔ پس میرا سلام انہیں پہنچا دو۔۳۱۔ جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی، حتیٰ کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "یا باقَرالعلم” اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی علیہ السلام کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام انہیں پہنچایا۔ جابر عمر کے آخری سالوں میں ایک سال تک مکہ میں بیت اللہ کی مجاورت میں مقیم رہے۔ اس دوران عطاء بن ابی رَباح اور عمرو بن دینار سمیت تابعین کے بعض بزرگوں نے ان کا دیدار کیا۔ جابر عمر کے آخری برسوں میں نابینا ہوئے اور مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔۳۲۔ مِزّی نے جابر کے سال وفات کے بارے میں بعض روایات نقل کی ہیں، جن میں جابر کے سال وفات کے حوالے سے اختلاف سنہ 68 تا سنہ 79 ہجری تک ہے۔۳۳۔ بعض مؤرخین اور محدثین سے منقولہ روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری نے سنہ 78 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور والی مدینہ ابان بن عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔۳۴۔
حوالہ جات:
۱۔ابن کثیر دمشقی، جامع المسانید، ج 24، ص 359.
۲۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211۔
۳۔ حسین واثقی، جابر بن عبدالله انصاری، ص 63 ـ 50۔
۴۔ شرح نهج البلاغه ابن ابیالحدید، ج 13، ص 229؛ ابنشهرآشوب، المناقب، ج 2، ص 7؛ مسعودی، التنبیه و الاشراف، ص 198۔
۵۔ شیخ صدوق، الامالی، ص 47 و علل الشرایع، ص 142؛ بحارالأنوار، ج 38، ص 6 ـ 7۔
۶۔ علی احمدی میانجی، مواقف الشیعه، ج 3، ص 281۔
۷۔ ابنشعبه حرانی، تحف العقول، ص 186 ـ 188؛ بحارالأنوار، ج 70، ص 100 ـ 101۔
۸۔ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج 1، ص 220؛ ابناثیر جزری، أسدالغابه، ج 1، ص 308.شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج 1، ص 2323؛ شیخ طوسی، تهذیب الأحکام، ج 3، ص 264؛ بحارالأنوار، ج 33، ص 439۔
۹۔نصر بن مزاحم منقری، وقعة صفین، ص 217۔
۱۰۔ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 197 ـ 198؛ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 2، ص 10؛ ثقفی، الغارات، ج 2، ص 606۔
۱۱۔ سورہ نساء (4) 176۔
۱۲۔طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن۔
۱۳۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444۔
۱۴۔خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118۔
۱۵۔ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191۔
۱۶۔عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج1، ص57ـ60۔
۱۷۔ صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «ص »، ص414۔
۱۸۔ابن ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص34۔
۱۹۔ابن بابویہ، معانی الاخبار، 1361 ش، ص74۔
۲۰۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص345ـ346۔
۲۱۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص189ـ190۔
۲۲۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص258ـ259؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص282۔
۲۳۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1363ش، ج1، ص253، 286، 288۔
۲۴۔ رجال طوسی، ص 72۔
۲۵۔محمد بن یعقوب کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص527 ـ 528؛ ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص308ـ313۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص97۔
۲۶۔ ارشاد مفید، ص 234 و بحارالأنوار، ج 45، ص 6۔
۲۷۔ شیخ طوسی، مصباح المتهجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195۔
۲۸۔ عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارة المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،ح 62.
۲۹۔ محمدبن ابوالقاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص74ـ 75۔
۳۰۔ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص123ـ124۔کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
۳۱۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191ـ192۔
۳۲۔ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص453ـ545۔
۳۳۔قتیبہ، المعارف، ص307۔
۳۴۔ ابن عساکر، علی بن حسن، مدینة الدمشق، ج 11، ص 237۔