پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز کی ملت جعفریہ سے اپیل

رپورٹ: ایس سجاد عباس

پاکستان مسلمانوں کیلئے اسلام کے مطابق زندگی گذارنے کیلئے قائم ہوا، تمام مسلمانوں کے نزدیک وطن عزیز کو ایک تقدس حاصل ہے۔ کشمیر کی صورتحال سمیت ہم مسلسل حادثات کا شکار ہیں، اپنے عزیزوں کی واپسی کیلئے شیعہ مسنگ پرسنز کی فیملیز اور جملہ ملت تشیع کا مطالبہ ہے کہ قانون کے مطابق ہمارے پیاروں کو بازیاب کروایا جائے، عدالتوں میں پیش کیا جائے، بلاجواز اذیت سے چھٹکارا دیا جائے۔ ان لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوشاں ایکشن کمیٹی کی اپیل حسب ذیل ہے:

جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز پاکستان، کی اپیل اور لائحہ عمل:
سینکڑوں خاندان سرگرداں ہیں کہ کچھ عرصے سے ہماری ملت کے چنیدہ افراد کو بے گناہ جبری طور پر غائب کیا جا رہا ہے۔ اچانک مائوں سے بیٹے، بچوں سے سروں سے انکے شفیق باپ، بہنوں سے انکے بھائی جدا کر دیئے جاتے ہیں۔ انہیں کہاں لے جایا جاتا ہے، وہ کس کے پاس ہیں، انہیں کیوں جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا ہے؟؟؟. سب جانتے ہوئے بھی بے بسی کا عالم ہے کہ کوئی بھی بات نہیں کی جاتی۔ اب جب پانی سر سے اوپر جانے لگا تو اس ملت مظلوم کے چند احباب نے جبری لاپتہ کئے گئے افراد ملت کے خانوادوں کی دہائی پر ملی سطح پر تقریبا نظرانداز کر دیئے گئے اس معاملے کو ایڈریس کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتداء میں یہ معاملہ صرف جبری طور پر گمشدہ کئے گئے افراد کے لواحقین کی پریس کانفرنسز اور لیگل pursuance تک محدود رہا۔ کیونکہ جبری گمشدہ کئے گئے افراد کی کم تعداد ہونے کے باعث یہ معاملہ پوری ملت، مرکزی قیادت کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔ اس کے علاوہ دیگر ناگزیر وجوہات بھی آڑے آتی رہیں جس کی وجہ سے یہ مسئلہ عوامی تحریک کی شکل اختیار نہ کر سکا۔

جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دراز ہونے پر محسوس کیا گیا ہے کہ ایک خاص سوچ کے تحت ملت تشیع کے متحرک اور اہم افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پورے ملک بشمول ڈیرہ اسماعیل خان، لاہور، چنیوٹ، فیصل آباد، بھکر، راولپنڈی، اسلام آباد، جنوبی پنجاب، پارا چنار، اندرون سندھ، سکھر سے ملت تشیع کے افراد جبری گمشدہ کئے گئے، لیکن کراچی میں تو ایک طوفان برپا تھا، کوئی دن نہیں جاتا تھا جب کسی نوجوان کی گمشدگی کی اطلاع نہ آتی۔ مسئلے کی حساسیت کے مدنظر حکومتی و ریاستی اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں بھی کی گئیں۔ لیکن اس کے باوجود جبری گمشدگیوں کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ مزید دراز ہوتا گیا۔ جس وجہ سے باہمی مشاورت کر کے اس معاملے کو ایک تحریک کی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا۔ ابتدائی مرحلے میں کراچی کی سطح پر تحریک کا آغاز ہوا۔ صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی کے گھر کے باہر کئی روزہ دھرنا دیا۔ یہ تحریک چند روزہ دھرنے میں اپنے کچھ لوگوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب رہی، لیکن کئی ایک ابھی تک لاپتہ ہیں، مقتدر اداروں نے سبھی لوگوں کی واپسی کا وعدہ کیا تھا جو ایفاء نہیں ہو سکا۔ اسی دوران اور بڑا واقعہ پیش آیا اور اسلام آباد سے یافث نوید ہاشمی ایڈووکیٹ کی جبری گمشدگی کا قضیہ ہو گیا۔ اس گمشدگی کو دبنے نہ دیا گیا، اس معاملے کو زندہ رکھا گیا، یوں آہستہ آہستہ یہ تحریک زور پکڑنے لگی۔

اب تقریبا دو ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے، ملک بھر میں گلگت سے لیکر کراچی تک روزانہ کی بنیاد پر احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ملتان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گھر کے سامنے دھرنا دیا گیا، جس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔ اس کی ایک مثال تو قریشی صاحب کا یافث نوید ہاشمی کے گھر آنا اور اس مسئلے کو اعلی ایوانوں تک پہنچانے کا وعدہ کرنا ہے۔ ان مساعی کا مقصد لاپتہ افراد کی محفوظ بازیابی تک تحریک کو زندہ رکھنا ہے، اور مسنگ persons کے issue کو انسانی حقوق کے تناظر میں عوامی ایشو بنانا ہے۔ اس تحریک کو ایک مرکزی کمیٹی لیڈ کر رہی ہے، جس میں علماء کرام کے ساتھ جبری گمشدگان کے خانوادگان کی نمائندگی شامل ہے۔ خانوادگان جبری گمشدگان سے ملاقاتوں میں جو انکے جذبات احساسات محرومیاں، احساس عدم تحفظ، احساس عدم تعاون محسوس کیا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گذشتہ مراحل میں عاشورہ کے دوران نشتر پارک کراچی میں مرکزی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ مختلف شخصیات کی طرف سے مرکزی ممبروں سے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند ہوئی۔ محرم الحرام کے جلوسوں اور عاشورہ کی نماز کے اجتماعات میں احتجاج کیا گیا۔

اب ملتان میں مسلسل مظاہرے جاری ہیں۔ 25 محرم کو پاکستان بھر میں یوم اسیر منایا گیا جبکہ لاہور اسلام آباد کراچی میں مظاہرے کئے گئے۔ لاہور میں silent protest اور ملتان میں پریس کلب کے سامنے بچوں کا مظاہرہ کیا گیا، 22 ستمبر اور 29 ستمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گھر کے باہر مظاہرہ کیا گیا، 3 اکتوبر 2019ء کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، یافث نوید ہاشمی ایڈووکیٹ کے گھر آئے۔ یافث نوید ہاشمی کا کیس ایک وکیل کی جبری گمشدگی کے کیس کے طور پر سامنے لایا گیا۔ جس سلسلے میں ملتان ہائی کورٹ بار کے صدر اور سیکرٹری کی پریس کانفرنس، ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ بارز میں ہڑتالیں ہوئیں، ہائی کورٹ بارز کے مظاہرے ہوئے، پنجاب بار کونسل کی ہڑتال ہوئی، ہائی کورٹ بار کے وفد کی chief justice islamabad high court سے ملاقات اور مدد کی درخواست کی گئی۔ ہائی کورٹ بار ملتان کی مدعیت میں writ petition دائر کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک کمیٹی نے پنجاب، DIK ، کراچی کے missing persons کے گھروں کا visit کیا۔ ایک بار پھر جبری طور پر گمشدہ افراد کی لسٹ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے دوبارہ مرتب کیا گیا۔

شیعہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جاری موجودہ تحریک نے یافث نوید ہاشمی کی گمشدگی کے بعد کام کا آغاز از سر نو کیا ہے۔ تمام ملی و قومی شخصیات سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ جہاں ان بزرگان کی نہ صرف توجہ اس معاملے کی طرف مبذول کرائی جائے، بلکہ انہیں اس تحریک کا حصہ بنا کر پوری قومی و ملی یک جہتی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں علامہ سید حافظ ریاض حسین نجفی، علامہ شیخ محسن نجفی، علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، علامہ افتخار حسین نقوی، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، علامہ سید جواد نقوی، علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی، علامہ عارف واحدی سے الگ الگ ملاقاتیں کی گئیں اور انہیں اس تحریک کے مقاصد سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ رہنمائی کی بھی درخواست کی گئی۔ ان علماء سے اپیل کی گئی کہ ملت جعفریہ کو درپیش مشکلات کے پیش نظر قومی اتحاد کی طرف پیش رفت کی جائے تاکہ کم ازکم اجتماعی قومی مسائل پر یکساں موقف اپنایا جائے۔ بالخصوص شیعہ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے معاملے پر یک زبان ہو کر بات کی جا سکے۔

ایک اہم سوال ہے، جس کی طرف متوجہ کرانا چاہتے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ملتان میں یافث نوید ہاشمی ایڈووکیٹ کے گھر آنا، ایک مثبت اقدام محسوس ہوتا ہے، اب تک کے شیعہ مسنگ پرسن کے گھر کبھی کوئی حکومتی شخصیت نہیں آئی، ایک وزیر خارجہ کا ایک شیعہ مسنگ پرسن کے گھر آنا اور اس مسئلے کو انسانی مسئلہ قرار دینا، اپنی ہمدردی کا اظھار کرنا، ساتھ دینے کی یقین دہانی کرانا، وزیراعظم تک وفد کے ہمراہ جانے کا وعدہ کرنا، یہ ایک achievement ہے، اس سے مثبت استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے مخالفین میں اضافہ کرنے کی روش اختیار کرنا مناسب نہیں۔ کمیٹی کا خیال ہے کہ ہمیں بات چیت کا دروازے کبھی بھی بند نہیں کرنا چاہیئے۔ قریشی صاحب کا چل کر آنا ایک مثبت پیش رفت ہے اسے وقت دینا چاہیئے، وہ موجودہ سیٹ اپ میں ایک اہم سیاسی فگر ہیں، ان کوریڈورز کو جانتے ہیں جہاں سے اس ایشو کو حل کیا جا سکتا ہے، اگر وہ ناکام ہوتے ہیں تو اگلا لائحہ عمل مرتب کرنے کا مکمل اختیار ہمارے ہاتھ میں ہے۔ لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے جاری تحریک میں شامل افراد اس ملاقات اور موقع کو امکان میں بدلنا چاہتے ہیں۔

میسر مواقع سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، ملت مظلوم پاکستان کے درمیان اتفاق اور یک جہتی کی روش کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں، تاکہ اس عالَم میں کہ جہاں کوئی بھی بوجہ اس تحریک کو own نہیں کر پا رہا، لیکن ساتھ سب دے رہے ہیں، وہاں پیشرفت کو ہر صورت ممکن بنانا چاہتے ہیں۔ ملت کے نام دردمندانہ اپیل یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملت جعفریہ کے متحرک ترین افراد اپنے حلقوں اور اپنے خانوادگان سے دوبارہ آ ملیں، تو ہمیں اپنا شرعی فریضہ سر انجام دینا ہو گا۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ کسی صورت ان مظلوم افراد کو بھولیں گے اور نہ ہی انکے خانوادوں کو تنہا چھوڑیں گے۔ یاد رہے ان جبری طور پر اسیران کئے گئے افراد کا اس کے علاؤہ کوئی جرم نہیں کہ وہ مکتب محمد و آل محمد علیھم السلام کے پیرو ہیں۔ یقین جانئے ہم سے ہمارے امور کے بارے میں سوال کیا جانا ہے اور مودت محمد آل محمد علیھم السلام میں جبری اسیر کئے گئے مومنین ہمارے لئے ایک مستقل سوال ہیں۔

جن کے بارے میں ہم سے ضرور پوچھا جائیگا۔ اس تحریک کی کامیابی کے لیے ہر فرد اپنا کردار ادا کرے، چاہے وہ کوئی مذہبی سیاسی شخصیت ہے یا سوشل میڈیا پر ایک متحرک شخص۔ ملت کے تمام طبقات، تنظیموں، جماعتوں، مدارس، شخصیات، قائدین، ذاکرین، ماتمی سنگتیں نیز تمام زعماء کو اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل ہے۔ اس سلسلے میں خانوادگان کا کراچی سے اسلام آباد مارچ کیا جائیگا، اس دوران ہر ضلعی صدر مقام پر استقبال اور اجتماعات کئے جائیں گے، مارچ کا آخری پڑاؤ اسلام آباد ہو گا۔ اسی طرح ہر شہر جہاں سے جبری طور پر کسی بھی مسنگ person کا تعلق ہے، وہاں کی مرکزی شاہراہ پر مظاہرے کیے جائیں اور دھرنے دیئے جائیں۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ہفت روزہ، مظاہروں کا انعقاد عمل میں لایا جائیگا۔ اس معاملے کو مزید جامع اور منظم بنانے کے لیے آرا کا بھی خیر مقدم کیا جائے گا۔ انشا اللہ آل پاکستان شیعہ پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کر کے ملت کے تمام طبقات بشمول قائدین، جماعتوں اور علماء و زعما کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے متحدہ لائحہ عمل مرتب کیا جائیگا۔

والسلام!
جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز پاکستان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button