جسٹس جواد خواجہ عزیز ہیں، عوامی اعتماد کیلئے بینچ سے الگ ہوا، جسٹس منصور
شیعہ نیوز: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں کی پیر کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ کی شمولیت پر انکی درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا تھا جس کی بنیاد پر جسٹس منصور علی شاہ بنچ سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔حکم نامے کے مطابق باقی ججز پر مشتمل چھ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ہے جو اس کیس کی سماعت کرے گا، حکم نامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا تین صفحات پر مشتمل نوٹ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں میں سے ایک درخواست گزار سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں جس کا تمام قانونی برادری کو پہلے سے علم تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ 22 جولائی کو پہلی سماعت پر میں نے کھلی عدالت میں پوچھا تھا کہ کیا کسی کو اس بات پر کوئی اعتراض ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل سمیت تمام وکلاء نے کہا تھا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے عوامی مفاد میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، موجودہ زیر سماعت کیس سے جواد ایس خواجہ کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔
فاضل جج نے لکھا کہ اٹارنی جنرل نے آج سماعت کے آغاز پر کہا وفاقی حکومت کا اعتراض ہے کہ میں بینچ میں نہ بیٹھوں، جب ایک جج پر اعتراض اٹھایا جائے تو اسی جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ بینچ میں بیٹھے یا انکار کرے، جب ایک جج پر اعتراض اٹھایا جاتا ہے تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ عوامی اعتماد کو ٹھیس تو نہیں پہنچ رہی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا حلف کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے، عدالتی نظام میں غیر جانبداری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے، عوامی اعتماد کے لیے بینچ سے الگ ہوا ہوں، اگر کسی جج پر معقول اعتراض ہو تو اُسے اعتماد کیلیے بینچ سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میں نے خود سے فوجی عدالتوں کیخلاف کیس سننے والے بنچ سے علیحدگی اختیار نہیں کی، میں نے آئین پاکستان کے دفاع اور حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے، اس کیس میں شفاف ٹرائل، بنیادی انسانی حقوق، انسانیت کی تکریم اور آزادی کا سوال ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مجھے شدید تحفظات تھے کہ اس عوامی مفاد کے کیس پر سماعت کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا، سپریم کورٹ کے تمام ججز پاکستان میں موجود تھے، میرے تحفظات کے باوجود میں فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ بنا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ میں کہنا ہے اعتراض کی صورت میں جج کیساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہوتا ہے، انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے، ظاہری اور حقیقی غیر جانبدارانہ انصاف عوامی اعتماد اور قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے۔
فاضل جج نے لکھا کہ عدالتی غیر جانبداری سے عوامی اعتماد، شفاف ٹرائل، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقاء برقرار رہتی ہے،، عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبدارانہ سے جمہوری روایات، شہریوں کی بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اگر کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کیلئے بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میں تسلیم کرتا ہوں جواد ایس خواجہ میرے عزیز ہیں، ایک عام شہری کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا ذاتی مفاد میں، میں وفاقی حکومت کے اعتراضات کی روشنی میں خود کو بینچ سے الگ کرتا ہوں۔