انٹرویوہفتہ کی اہم خبریں

کشمیر کے مسئلہ میں 40 ملکی اسلامی اتحاد سے کوئی توقع نہیں

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)

علامہ سید عابد حسین الحسینی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے لیا گیا انٹرویو پیش خدمت ہے۔

سوال: کمشیر کے حوالے سے بھارت کے حالیہ فیصلے اور اقدام پر اپنی رائے سے آگاہ کریں۔؟
علامہ عابد الحسینی: بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری مملکت قرار دے رہا ہے، حالانکہ بھارت میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں۔ بھارت کے قانون میں اسکے اندر تمام ریاستوں کو داخلی سطح پر بعض قوانین اور محکموں کا پورا اختیار حاصل ہے، جبکہ کشمیر کو شق نمبر 370 کے تحت بہت سارے امتیازات حاصل تھے۔ اس قانون کے مطابق بھارت کے کسی دوسری ریاست کے فرد کو کشمیر کی حدود میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ کشمیر کو دیگر کئی قسم کی خصوصی مراعات بھی حاصل تھیں، مگر بھارت کی موجودہ متعصب سرکار نے اسے بیک جنبش قلم پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بجائے ایک صدارتی حکمنامے سے ان سب مراعات کا خاتمہ کر دیا اور دو ہفتوں سے کشمیر میں کرفیو لگا رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں کشمیری مسلمان بھوک اور پیاس کا شکار ہیں۔ بھارت تو کیا، دنیا بھر میں انسانی حقوق کا بگل بجانے والے یورپی اور امریکیوں کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگتی۔

سوال: بھارت کیساتھ جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک کو کیا نقصان ہوسکتا ہے اور خود آپکا کیا کردار ہوگا۔؟
علامہ عابد الحسینی: جنگ کوئی مفید یا اچھی چیز نہیں۔ جنگ سے دونوں ممالک کو بے تحاشا نقصان ہوگا، تاہم جب جنگ مسلط کی جاتی ہے، تو مسلمانوں پر بحیثت اسلام جبکہ اہل وطن تمام شہریوں پر بحیثیت شہری کے جہاد اور جنگ واجب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارا ردعمل کیا ہوگا۔ اس سے پہلے 1947ء، 65 اور 71 میں بشمول تمام قبائل کے اہلیان کرم نے کیا کردار ادا کیا تھا؟ سب پر واضح ہے۔ بحیثیت مسلمان بالخصوص بحیثیت شیعہ کے ہم سب سے آگے ہونگے۔ ایک امید مجھے جنگ سے وابستہ ہے کہ جنگ کی صورت میں اگرچہ بہت بڑا نقصان ہوگا، تاہم قوم میں جو پھوٹ، نفاق اور فرقہ واریت ہے، وہ چیز ختم ہو جائے گی اور اگر ہم متحد ہوگئے تو دنیا دیکھے گی کہ ایک ہفتے میں جموں اور سری نگر پر کونسا پرچم لہراتا ہے۔

سوال: موجودہ مسئلے میں عالم اسلام خصوصاً ہمسایہ ممالک کو کیا کردار ادا کرنا چاہیئے۔؟
علامہ عابد الحسینی: دیکھیں، ہر ملک بلکہ ہر فرد کو اپنے ذاتی اور اندرونی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ پہلے انسان اپنے مفادات کا خیال رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ پہلا اقدام حاجتمند کرتا ہے۔ دنیائے اسلام ہو یا کوئی بھی ہمسایہ ملک، پہل پاکستان کو کرنا ہوگی۔ تاہم یہ بات مدنظر ہو کہ ہر ملک اپنے مفادات کو بھی مدنظر رکھے گا اور اپنے مفادات کے دائرے میں رہ کر پیشکش کرے گا۔ جس کے لئے پاکستان کو بھی کچھ کرنا ہوگا۔ چنانچہ اس وقت پاکستان کو چاہیئے کہ ہمسایہ ممالک اور عالم اسلام سمیت پوری دنیا کو اعتماد میں لیکر بھارت پر سیاسی اور اخلاقی برتری حاصل کرے۔

سوال: ایران کبھی کشمیر کے حوالے سے بہت فعال تھا، خصوصا امام خمینی کے دور میں۔ اس ایشو کے حوالے سے ایران کا کیا فرض بنتا ہے۔؟
علامہ عابد الحسینی: جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہر ملک کے اپنے اندرونی مفادات ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایران کے بھی اپنے مفادات ہیں۔ پاکستان جا کر ایران کے ساتھ شفاف طریقے سے بغیر کسی تذبذب کے مذاکرات کرے۔ پاکستان اور ایران کے اتحاد کی صورت میں دنیا کی کوئی طاقت انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ اتحاد دونوں ممالک کے فائدے میں ہے۔ میرا خیال ہے، دنیائے اسلام کے تمام مسائل و مشکلات کا حل، پوری امت مسلمہ خصوصاً ایران اور پاکستان کے اتحاد میں مضمر ہے۔ مگر کیا کہا جائے، بدقسمتی سے پاکستان سمیت عالم اسلام کے تمام سربراہان مملکت امریکہ اور اسرائیل کے کاسہ لیس ہیں۔

اللہ اور اسلام کی روحانی طاقت پر انکا ایمان نہیں۔ اگر اللہ پر ان کا ایمان ہوتا تو آج جگہ جگہ مسلمان کفار و مشرکین کے ہاتھوں ذلیل نہ ہوتے۔ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے پاکستان اور ایران کی ایک گھنٹے کی کارروائی کی ضرورت ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ پاکستان کا اب بھی خود اپنے آپ پر نیز اللہ اور اسلام کی طاقت کے بجائے امریکہ، یورپ اور ان کے نمبر ون غلام سعودی عرب پر تکیہ اور اعتماد ہے اور انہی کی جانب امید لگائے بیٹھا ہے۔ میں پاکستان کے موجودہ حکمران جماعت اور ان کے سربراہ سے امید رکھتا ہوں کہ کسی بھی ملک کا خیال و خاطر رکھے بغیر ڈائریکٹ ایران کے پاس جاکر ان کی کمک حاصل کریں اور ان کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا اتحاد تشکیل دیکر بھارت سمیت ہر بیرونی اور اندرونی دشمن کا راستہ روکیں۔

سوال: اسلامی ممالک خصوصاً 40 ملکی اسلامی اتحاد کشمیر کے حوالے سے کیا کرسکتا ہے؟ کیا ان سے خیر کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔؟
علامہ عابد الحسینی: یہ اتحاد تو پہلے ہی واضح کرچکا ہے۔ ریاض کانفرنس کے دوران اس اتحاد کے بانی نے پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک کو چھوڑ کر بھارت کو شرکت کی دعوت دی۔ پاکستان نے اس میں شرکت نہیں کی۔ پاکستان کے احتجاج کے باوجود ان کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔ دیکھیں ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے ہیں۔ پاکستان کی نسبت اس کی تجارت کا زیادہ انحصار بھارت پر ہے۔ وہ بھارت کو کسی صورت میں ناراض نہیں کرسکتا اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس اتحاد کا کمانڈنگ انچیف سابق پاکستانی آرمی چیف ہے۔ اس کے باوجود وہ پاکستان کی نسبت بھارت کو ترجیح دیتا ہے۔ اس سے خیر کی کوئی امید نہ صرف بھارت کے ساتھ معاہدات کیوجہ سے نہیں بلکہ اسکے آقا امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی ناراضگی کی وجہ سے بھی وہ اس حوالے سے بے طرف رہنے کو ترجیح دے گا، کیونکہ وہ اللہ و رسول سمیت پورے عالم اسلام کی ناراضگی تو مول لے سکتا ہے، تاہم امریکہ اور اسرائیل کی ناراضگی وہ کسی صورت میں ہضم نہیں کرسکتا۔ چنانچہ میرا تو یہی خیال ہے کہ پاکستان کو اس اتحاد کے بجائے، ایران، چین، روس اور ترکی کو ترجیح دینی چاہیئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button