مضامین

شانت رہیئے، انقلاب باقی ہے

اب بس انقلاب گیا، اب تو نظام ولایت فقیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ حکومت اور نظام تبدیل ہو جائے گا، ایران میں تبدیلی آگئی۔ چند دن پہلے تک پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ پروپیگنڈہ کے تاثر کے تحت ایران میں انقلابی حکومت کے خاتمہ کیلئے پریقین تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا اچھا فرض کریں کہ حکومت ختم ہوگئی تو نیا لیڈر کونسا ہوگا، نیا نظام کونسا ہوگا، سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہ بن پاتا۔ اس سارے شور اور جھوٹ پر سوائے ہنسنے کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب کی بار امریکہ و اسرائیل نے ایران کے خلاف نئی چال چلی اور ایک نیا حربہ استعمال کیا، مگر منہ کی کھانی پڑی۔ جھوٹ اور فریب کی اس مہم میں سب زیادہ جھوٹ ایرانی حکومت کے نہیں بلکہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف کیا گیا۔ بلاشبہ اب ساری زبانیں ہف ہوچکی ہیں اور انقلاب کے خلاف شور بھی تھم گیا ہے۔ شانت رہیئے، انقلاب باقی ہے، رہے نام مولا کا۔

جھوٹ کے بعد ایک نیا جھوٹ بولا گیا اور اس قدر جھوٹ کہ سچ دکھائی دے۔ برطانوی میڈیا سے آیت اللہ خامنہ ای کی رحلت کی خبریں نشر کی گئی اور مکمل تاثر دیا گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای نہیں رہے۔ سوشل میڈیا سے لیکر الیکٹرونک میڈیا سے پہلے بیماری، پھر آواز کم ہوگئی، وزن کم ہوگیا ہے، حتیٰ کہ یہ خبر بھی چلائی گئی کہ ان کے جسد خاکی کو نجف تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ ان کے خاندان کے افراد ملک سے فرار ہوگئے ہیں اور اس خبر کو بھی باوثوق ذرائع سے منسوب کرکے سوشل میڈیا سے وائرل کیا گیا۔ ایران میں کسی بھی خاص موقع پر جب سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا خطاب ہوتا ہے تو سٹیج پر عمومی طور پر دو قسم کے بینر ضرور لگائے جاتے ہیں، جن پر امام خمینی کا فرمان ”امریکہ ایران کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا“ دوسرے بینر پر ”ہم امریکہ کو پاوں تلے روندتے ہیں“ در ج ہوتا ہے۔

تمام سازشوں اور جھوٹ کے شور میں چاک و چوبند شخصیت کے مالک آیت اللہ خامنہ ای ایک بار پھر سب کے سامنے جلوہ افروز ہوتے ہیں، گارڈ آف آنر کا معائنہ اور خطاب کرتے ہیں، دنیا کو بتلاتے ہیں کہ ایرانی بلوے کے پیچھے امریکی سامراج ہے۔ وہ ایک ایک سازشی اور ان کی سازشوں کو آشکار کرتے ہیں۔ بے بنیاد خبروں اور پروپیگنڈے کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کا خطاب سامراج کی ساری سازشوں اور حماقتوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، ایک بار امریکی سازشوں کو روندتے ہوئے پھر یہ ثابت کیا کہ امریکہ ایران کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔

لوحِ ایام کے مصنف مختار مسعود 1979ء میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک ملٹری اتاشی نے کہا: ”ایران میں دائیں اور بائیں بازو والے مسلح گروہوں میں جنگ ہو رہی ہے، جو اس خانہ جنگی میں جیت گیا، وہی مستقبل کا وارث ہوگا۔” شروع میں ہمیں یقین تھا کہ تجربہ کار اور تربیت یافتہ اشتراکی بہت جلد غالب آجائیں گے، مگر یہ خیال غلط نکلا۔ دائیں بازو والے موت سے نہیں ڈرتے، عوام ان کے ساتھ ہیں، رہنماء غیر معمولی کرشمے کا مالک ہے۔” ایران نے ایسی صورتحال کا سامنا متعدد بار کیا۔ ایک بار پوری اسمبلی کے اراکین و قیادت کا شہید ہو جانا۔ انقلابی شخصیات کا باغی ہو جانا، 3 لاکھ جوانوں کا شہید ہونا اور مخملی انقلاب کی متعدد کوششوں سے انقلابِ اسلامی ایران کو کمزور کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ شورش پسندوں کے منصوبے، انقلابی طبقے کی جلد بازی، کمزوری، حکومتی ناتجربہ کاریاں اور پابندیاں ایران 40 سال سے بحرانوں اور انارکی کا سامنا کر رہا ہے۔

یاد رکھیں کسی نئے حربہ کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انقلاب خطرے میں ہے بلکہ ایران کے خلاف نئی سازش خطرے میں پڑ جاتی ہے اور سامراج ایک نئے سازش بننے کی تیاری کرتا ہے۔ اس دورانیہ میں پاکستان میں ناصبی اور آزاد خیال لوگوں نے بھی اس آڑ میں اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ بے بصیرت لوگوں میں کچھ ایسے بابصیرت لوگ بھی تھے، جنہوں نے اس واقعہ کو سامراج کی چال قرار دیکر خاموشی اختیار کی، میرے ایک صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ دوست سے میں نے دریافت کیا کہ آپ ایران پر تنقید کرتے ہیں، مگر اس بار خاموش ہیں۔ اس کے جواب نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا۔

اس نے بتایا: "پہلی بات تو یہ ہے کہ مہسا امینی کی موت ہی مشکوک ہے۔ اگر ہوا بھی تھا تو اس کے بعد جو وہاں اور یورپ میں حجاب کے نام پر ہوا، وہ غیر اخلاقی اور غیر مذہبی تھا۔ یہ حجاب کی حرمت کا مسئلہ تھا، یہ جو ہم پاکستانی مسلمانوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمیں بطور پاکستانی اپنے مسائل پر بھی غور کرنا چاہیئے، ایران پر تنقید کرنے کا مطلب ہے، موقف پر بحث کی جائے، نظریات سے اختلاف کیا جائے، پالیسیوں کو مورد ہدف بنایا جاسکتا ہے۔ اسٹریجٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، یا تجزیہ و تحلیل پر بات کرنی چاہیئے۔ اس حد تک نہیں گرنا چاہیئے کہ ہم پستی کے کنویں میں جا گریں اور یہ بھی بھول جائیں کہ حجاب کی حرمت کا مسئلہ تو ہم سب کا عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ ہمیں 75 سال ہوئے آزاد ہوئے، ہم نے کیا قربانیاں دی ہیں، پڑوسی ممالک میں افغانستان کے بعد ایران ہے، جہاں انہوں نے اپنی قیادت کو قربان کر دیا ہے، 40 سال سے زائد مسلسل پابندیوں اور سازشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں۔؟”

کیا کسی نظریاتی انقلاب کو گرانا اس قدر آسان ہوتا ہے۔؟ امریکی سامراج اپنے ایک اور حربہ میں ناکام ہوا اور انقلابِ اسلامی اب بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ سامراج اپنے مخالفین کو ہٹانے کیلئے کیا کیا حربے استعمال کرتا ہے اور پھر کن طریقوں سے ان حربوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ واقعہ کے آغاز سے انجام تلک بطور مثال بغور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: توقیر کھرل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button