خان کی ریاستِ مدینہ یا اندھیر نگری، چوپٹ راج
شیعہ نیوز:رات کی تاریکی میں مہنگائی کی چکی میں پِسے بے حال عوام پر پٹرول بم گِرا کر کپتان صاحب ریاستِ مدینہ کی جانب ایک قدم اور بڑھا گئے۔
دس سے بارہ روپے فی لیٹر تک قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا جو ہولناک طوفان آئے گا، اس کا تو سوچ کر ہی دل میں ہول سا اٹھنے لگا ہے۔ اب تو بس اللہ ہی خیر کرے گا۔حکومت کی جانب سے صرف یہ کہہ کر ہاتھ جھاڑ لینا کہ تیل مِل مہنگا رہا ہے اس لیے عوام کو مہنگا دے رہے ہیں، ہرگز کوئی جواب اور جواز نہیں۔ حکومت کی تو ذمے داری ہی عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے، یہ نہیں کہ بس عالمی منڈی سے خرید کر لوکل مارکیٹ تک پہنچا دو؛ اور بیچ میں ٹیکس کے نام پر اپنا ’’کٹ‘‘ وصول کرکے ایک طرف ہوجاؤ۔اس وقت درجنوں ایسی مدات ہیں جن پر عوام کے ٹیکس کا کروڑوں روپے ضائع کیا جارہا ہے۔ جیسے کہ وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز کے بھاری بھرکم اخراجات، وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج، انہیں دی گئی گاڑیاں، دفاتر، نوکر چاکر اور دیگر مراعات، ججز، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی جیبوں، پیٹوں اور بینک اکاؤنٹس میں جانے والی نوٹوں کی بھاری گڈیاں… ان تمام اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ بلا مبالغہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی خطیر رقم بنتی ہے۔
یعنی ’’اوپر والوں‘‘ کی عیاشی کا ایک ایک پیسہ عوام کا خون نچوڑ کر وصول کیا جارہا ہے!
آپ واپس لیجیے یہ ساری آسائشیں اور مراعات۔ وزیراعظم صاحب شاہ فیصل مسجد کے صحن میں اپنا دربارلگائیں اور وہاں سے امور ریاست چلائیں۔ چیف جسٹس صاحب لال مسجد میں عدالت لگائیں اور قرآن و شریعت کی روشنی میں قضا کے معاملات نمٹائیں۔
وزرا اور مشیران کو ڈی چوک پر ایک تمبو گاڑ کر کیمپ بنا کر دے دیا جائے جہاں ان کےلیے پیڈسٹل فین اور ٹھنڈے پانی والے کولرز لگادیئے جائیں، بیٹھیں اُدھر اور ٹائم پاس کریں، ویسے بھی کرنا تو انہیں کچھ ہوتا نہیں۔ پھر اس ایکسرسائز سے جو خطیر رقم بچے، اسے آپ اس کمزور طبقے کو اوپر اٹھانے پر خرچ کیجیے جن کےلیے آپ تقریروں کی حد تک ہلکان ہوئے جارہے ہوتے ہیں۔
اس کے ثمرات سے یقیناً پوری قوم مستفید ہوگی کہ بہرحال آپ کی یہ بات تو فلسفے اور نظریے کی حد تک تو بالکل ٹھیک ہے کہ ریاست کی جانب سے کمزور طبقے کی خبر گیری و نگہبانی آسمان سے رحمتوں برکتوں کے نزول کا باعث بنتی ہے۔
یہ میں کوئی اناپ شناپ نہیں بک رہا، انہونی بیان نہیں کررہا؛ بلکہ جس ریاستِ مدینہ کے نام کی مالا جپتے آپ نہیں تھکتے، اسی تاجدارِ مدینہ ﷺ اور ان کے جانشیں دنیا کے بہترین حکمرانوں نے عملاً ایسا کرکے دکھایا ہے۔
ہادئ عالم رحمت اللعالمینﷺ کے پاس امورِ ریاست چلانے کےلیے علیحدہ سے کوئی عالیشان محل نہیں تھا؛ امیرالمومنین خلفائے راشدین نے کوئی وزیراعظم ہاؤس یا ایوانِ صدر بنوایا نہ بننے دیا، سادگی کو شعار بنایا، قناعت کے راستے کو اپنایا، تب جاکر وہ دنیا کے حاکم بھی بنے اور دلوں کے حکمران بھی رہے۔
اس کے برعکس آپ کی باتیں تو بڑی چکنی چپڑی، چٹ پٹی، مصالحے دار ہیں مگر آپ کے اعمال و اقدام ریاست مدینہ اور تاجدار مدینہﷺ سے یکسر مختلف ہیں۔ مگر یہ فارمولا زیادہ عرصے کارگر رہ نہیں پاتا۔
گفتار کے غازی نہ بنیے خان صاحب! کردار کے مجاہد بنیے۔ یقین جانیے آپ بن بھی سکتے ہیں کیونکہ جس قدر مضبوط اعصاب اور سرپھرے مزاج کے حامل آپ ہیں، ریاستِ مدینہ کی جانب پیش قدمی کےلیے قوم کو ایسے ہی کسی دیوانے، کسی مجنوں کی ضرورت ہے۔
اگر تو آپ یہ کر گزرے تو تاریخ آپ کو نشاۃ الثانیہ کے معمار کے طور پر یاد رکھے گی، ورنہ جس اقبال کو آپ اپنا مرشد گردانتے ہیں، اسی کا یہ شعر آپ کےلیے طعنہ بن جائے گا کہ
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار، وہ کردار، تُو ثابِت وہ سیّارا