مضامینہفتہ کی اہم خبریں

پاکستان میں خمینی ازم کا پرچار

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) پاکستان میں ان دنوں خمینی ازم کی اصطلاح استعمال کرنے والوں نے ہمیشہ کی طرح جھوٹ کو شد و مد سے بیان کیا۔ اس لیے اس موضوع سے متعلق سچ کو بیان کرنے کے لیے یہ تحریر پیش خدمت ہے۔ البتہ اس موضوع کو سمجھنے سے پہلے چند دیگر نکات کا علم حاصل کرنا بھی لازم ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف نظریات کے حامی پائے جاتے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں بھی نظریات کے لیے ایک لاحقہ ازم کا لگایا جاتا ہے۔ ازم یونانی و لاطینی زبان کے توسط سے اب انگریزی زبان کا ایک ایسا لاحقہ ہے کہ جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں زبان زد عام ہے۔ بعض نظریات اپنے موضوع کی وجہ سے ازم ہوتے ہیں، جیسے کہ سوشل ازم اور کمیون ازم۔ امریکا و یورپ میں اسلام ازم ایک عام اصطلاح ہے۔ لیکن بعض شخصیات اتنی مشہور ہوتیں ہیں کہ ان کی تعلیمات، توضیحات و تشریحات ان کے نام سے منسوب ہو جاتیں ہیں، جیسا کہ کارل مارکس کے نظریات کے لیے مارکس ازم اور ماؤزے تنگ کے نظریات کے لیے ماؤ ازم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

یہ تمہیدی جملے لکھنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ مارکس ازم، ماؤ ازم، لینن ازم، کمیونزم، سوشلزم، ان میں سے کسی کا بھی دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے جو اصطلاح کیپیٹل ازم استعمال ہوتی ہے، اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ان سارے غیر اسلامی یا اسلام دشمن نظریات کے پیروکار اور حامی پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنا ناقابل نظر انداز وجود رکھتے ہیں۔ البتہ کمیونزم، سوشل ازم اور مارکس ازم کے پیروکاروں کو پاکستان میں مشکلات کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کہ ریاست پاکستان کیپیٹل ازم کے پیروکار مغربی بلاک سے وابستہ رہی کہ جو عالمی سطح پر کمیونزم اور سوشل ازم کی پیروکار مرکزی ریاست سوویت یونین سے سرد جنگ اور پراکسی جنگوں میں مصروف رہا۔ البتہ ایک طویل عرصے سے مارکس ازم اور دیگر غیر اسلامی ازم کے پیروکار یا اس کو پسند کرنے والے پاکستان میں مزے سے رہ رہے ہیں اور اپنی تبلیغاتی سرگرمیاں بھی بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی صفوں میں موجود ملحدین کو بھی کافر نہیں کہا جاتا۔ نہ ہی ان کے خلاف کوئی جماعت یا گروہ بنا!؟ حتیٰ کہ اس دور میں بھی نہیں بنا، جب سوویت یونین کا سقوط نہیں ہوا تھا۔

یہ خبر بھی پڑھیں عزاداری ہماری شناخت ہے ،اسے خون دے کر بھی جاری رکھیں گے

جہاں تک بات ہے جناب آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی امام خمینی کی تو ان کے نظریات کو خمینی ازم کا لاحقہ مغربی ذرائع ابلاغ نے دیا ہے۔ یعنی خمینی ازم اسی سرمایہ دارانہ مغربی بلاک کی مسلط کردہ اصطلاح ہے۔ درحقیقت امام خمینی ؒ قرآن و اہل بیت نبوۃ، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے احکامات و تعلیمات کے پیروکار ایک اثناء عشری شیعہ اسلامی فقیہ و عالم دین اسلام ہیں۔ وہ اسلامی افکار یعنی خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) اور قرآن کریم کے افکار کے مبلغ ہیں۔ امام خمینی ؒ کے افکار کتابی شکل میں بلحاظ موضوعات بھی باآسانی دستیاب ہیں۔ توحید، عدل، نبوت، امامت و قیامت (معاد) سے متعلق ان کے افکار آج بھی دستیاب ہیں۔ انہوں نے خالص اسلامی عقائد کی پیروی کرتے ہوئے ایران میں کامیاب انقلاب اسلامی برپا کیا۔ ایران کے قانون اساسی (یعنی آئین و دستور) کو کھول کر پڑھیں تو ایران کے سیاسی نظام کی بنیاد قرآن و اہل بیت (ع) ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے امام خمینی ؒ نے ایران میں اسلامی انقلاب کو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد عوام کی مدد سے کامیاب کیا۔ عوام کی تائید سے ایران میں بادشاہی نظام کا خاتمہ ہوا اور مملکت کا نام جمہوری اسلامی ایران قرار پایا۔ خمینی ازم کے پرچار کی حقیقت جاننے سے پہلے ان ناقابل تردید حقائق کو جاننا ضروری ہے، جو یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ پیش ہوئے۔

ہمارے ملک کا رسمی نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک اور پڑوسی ملک کا نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ جو طبقہ پاکستان میں خمینی ازم کے پرچار کے عنوان سے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کر رہا ہے، وہ خود کس نظریئے کا پیروکار ہے!؟ ان میں سرفہرست حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کے تکفیری ناصبی نظریہ کے پیروکار ہیں۔ اب اس تکفیری ناصبی دہشت گرد نظریہ کے پیروکار یہ بتائیں کہ آیا وہ خود نظریہ پاکستان پر ایمان رکھتے ہیں!؟ کیا وہ قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان اور قومی شاعر علامہ اقبال کے نظریات کی پیروی کرتے ہیں!؟ کیا وہ اپنے ہم وطن کلمہ گو مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں!؟ حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ اور موجودہ تکفیریوں کے تکفیری بزرگان کی وہ تفاسیر و تحاریر و تقاریر آج بھی دستیاب ہیں کہ جن میں یارسول اللہ ﷺ کہنے والے سنیوں کو بھی کافر و مشرک قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ و کالعدم لشکر جھنگوی دہشت گرد ٹولہ کا پورا وجود اپنے آغاز سے انجام تک پاکستان میں جناح ازم اور علامہ اقبال ازم کے پرچار کا دشمن و مخالف ہے۔ یہ لعل شہباز قلندر اور داتا دربار کے مزرات پر جانے والے مسلمانوں کو قبر کا بجو اور قبر کا پجاری کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تکفیری ناصبی ٹولے نے پاکستان میں دہشت گردی اور نفرت کے سارے عالمی ریکارڈ توڑ ڈالے۔

یہ خبر بھی پڑھیں اپنے معاشرے کو جنت بنانے کیلیئے خط فاطمیؑ کو اپنانا ہوگا

وحشی دہشت گرد تکفیریوں کی نظر میں پاکستان اسلامی مملکت نہیں ہے!! اصل ایشو یہ ہے اور باقی سب ثانوی باتیں ہیں۔ خمینی ازم تو بعد کا مسئلہ ہے اور پاکستان اپنی ایک منفرد تاریخ اور نظریاتی پس منظر کے ساتھ عالم اسلام کا ایک اہم ملک ہے۔ اصل میں پاکستان ہی وہ ملک ہے کہ جہاں ایران میں امام خمینی ؒ اور ملت ایران کے تاریخ ساز قیام کی پیشن گوئی علامہ اقبال نے پاکستان کے قیام سے نصف صدی قبل کر دی تھی۔ "چون چراغ لالہ سوزم در خیابان شما، ای جوانان عجم، جان من و جان شما!” اسی شہرہ آفاق نظم میں علامہ اقبال نے ایرانیوں کو بتایا کہ انہوں نے ایران کی جیل کی دیواروں کی کھڑکی کے اندر سے دیکھ لیا ہے کہ ایک مرد میدان ان کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالے گا۔ یہ علامہ اقبال کا پاکستان ہے کہ جس اقبال نے ایران کے اسلامی انقلاب سے نصف صدی قبل کہا تھا:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

ویسے بھی علامہ اقبال کے افکار اور امام خمینی کے افکار میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں نظریاتی لحاظ سے امت مسلمہ اور امت واحدہ کی کاز سے مخلص۔ دونوں حضرت محمد خاتم الانبیاءﷺ اور اہل بیت نبوۃﷺ کے عاشق۔ دونوں قرآن و اہلبیتؑ کے عقیدت مند۔ دونوں کا مرشد امیرالمومنین علی ؑ۔ دونوں حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوذرؓ، حضرت اویس قرنی کے مداح۔ دونوں ہی امت کے اتحاد کے لیے اختلافات کو نظر انداز کرنے والے درد مند مفکر۔ علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد و خود مختار مملکت میں جس محمدی، حیدری، فاطمی، حسنی، حسینی رنگ کو دیکھنا چاہتے تھے، امام خمینی کے کامیاب اسلامی انقلاب کے بعد ایران اسی صبغت اللہی رنگ کا مظہر بن کر دنیا کے فرعون و نمرود و شداد کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے۔ جب اسرار کا یہ ملی نغمہ سنتا ہوں، میں شاہیں ہوں اقبال کا، میں گھر حیدرؑ کی آل کا، میں قائد کا فرمان، میرے سینے میں قرآن، تو پوری دنیا میں ایران ہی پاکستان کے سب سے زیادہ نزدیک نظر آتا ہے!؟

علامہ اقبال ؒ اور محمد علی جناحؒ کا پاکستان اور ایران ایک جان دو قالب ہیں۔ جس ایران کے اسلامی انقلاب اور بانی انقلاب کے افکار کو خمینی ازم کہہ کر سوشل میڈیا پر تکفیری ناصبی نظریات کا پرچار کیا گیا، اسی خمینی ازم کو پاکستانی قوم علامہ اقبال کے افکار قرار دے کر سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ اگر اسلامی انقلاب ایران اور امام خمینی ؒ کے اس زندہ معجزے کا نام خمینی ازم ہے تو ایسے ہی سہی۔ سوشل میڈیا پر واویلا حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کے تکفیری ناصبی نظریئے کی شکست کا ثبوت ہے۔ جناح و اقبال کا پاکستان شیطان رشدی کے خلاف خمینی ازم کا پرچارک ہے۔ علامہ اقبال و جناح کا پاکستان فلسطین اور بیت المقدس پر خمینی ازم کا پرچارک ہے۔ اقبال و جناح کا پاکستان ستار علوی جیسے مایہ ناز غازیوں کے ساتھ ایران کے جنرل حاج قاسم سلیمانی، شہید بیت المقدس کا قدردان ہے اور جھنگوی لعنت اللہ علیہ کے پیروکار کیا ہیں!؟ مساجد و مزارات میں گھس کر پھٹنے والے تکفیری ناصبی بمبار۔ جی ایچ کیو میں گھس کر فوجیوں کو قتل کرنے والے غدار وطن۔ یہ قاتل، وحشی درندے، فرعون ازم، یزید ازم کے پیروکار، انہیں کیا معلوم کہ اسلام کیا ہے اور مسلم و مومن کیا!؟ آج اسلام و مسلمین کے لیے اگر فخر کا باعث کوئی قائد و رہنماء عالم دین ہے تو وہ امام خمینی بت شکن یا امام خامنہ ای استعمار شکن ہی ہیں!

مرشد خامنہ ای نے تہران یونیورسٹی میں سال 1986ء میں علامہ اقبال بین الاقوامی کانگریس سے خطاب میں علامہ اقبال کو مشرق کا بلند اقبال ستارہ کہا تھا۔ انہوں نے تاریخی حقائق کو یوں پیش کیا: ”آج اقبال کی آرزو یعنی اسلامی جمہوریت نے ہمارے ملک میں جامہ عمل پہن لیا ہے۔۔۔۔۔ اقبال کے خودی کے پیام کو ہماری قوم نے میدان عمل میں اور حقیقت کی دنیا میں عملی جامہ پہنایا۔۔۔۔۔ ہماری لاشرقیہ و لاغربیہ کی پالیسی بالکل وہی ہے، جس کی بات اقبال کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ ہمارا پیغمبرﷺ اور قرآن سے عشق اور قرآن سیکھنے کے لیے ہماری نصیحت اور یہ بات کہ انقلابوں اور مقاصد کی بنیاد اسلامی اور قرآنی ہونی چاہیئے، بالکل وہی چیز ہے، جس کا مشورہ اقبال دیتے تھے، لیکن اس وقت ان باتوں کو سننے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔۔۔۔۔“ یہ علامہ اقبال تا امام خمینی ایک ہی کاررواں ہے۔ کند ہم جنس با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر، باز با باز۔ پاکستان کے تکفیریوں نے محمد بن عبدالوہاب نجدی اور آل سعود کے نظریات کے ساتھ پرواز کی ہے، انہیں کیا معلوم کہ آج کا ایران پاکستان کے علامہ اقبا ل ؒ کے افکار کی عملی تعبیر ہے۔!

تحریر: محمد سلمان مہدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button