ایام فاطمیہ، خطبہ فدک حضرت فاطمہ زہراؑ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) جب دختر رسول ﷺ شہزادی دو عالم حضرت فاطمہ زہرا ؑ کو یہ اطلاع ملی کہ ارباب خلافت نے یہ طے کرلیا ہے کہ ان کو فدک سے محروم ہی رکھا جائے تو آپ نے مسجد میں جاکر اپنی مظلومیت کا اعلان کرنے اور لوگوں کے درمیان ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمانے کا پختہ ارادہ کرلیا چنانچہ پورے مدینہ اور اس کے اطراف میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ بضعۃ الرسولؐ، ریحانۂ پیغمبرؐ اپنے بابا کی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمانے والی ہیں ، یہ خبر پاکر آپ کا تاریخی خطبہ سننے کے لئے ہر طرف سے لوگ جوق در جوق مسجد نبوی میں پہنچنے لگے۔
روایت ہے کہ جب ابو بکر اور عمر نے مل کر جناب فاطمہؐکو فدک واپس نہ کرنے کا پختہ فیصلہ کرلیا اور آپ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے اپنی چادر سر پر اوڑھی ، مقنعہ کو درست کیا ، اور اپنے خاندان نیز بنی ہاشم کی خواتین کے حلقہ میں گھر سے باہر تشریف لائیں اس وقت آپ کی چادر کے گوشے زمین پر خط دے رہے تھے ، اور آپ کے چلنے کا انداز بالکل رسول اللہؐ کے انداز سے مشابہ تھا ۔ یہاں تک کہ آپؑ اس خلیفہ کے پاس پہنچ گئیں جو اس وقت مہاجرین و انصار کے مجمع میں بیٹھے ہوئے تھے پھر آپ کے اور ان کے درمیان ایک پردہ ڈال دیا گیا اور آپؑ اس کے پیچھے بیٹھ گئیں ، اس کے بعد آپ نے ایک ایسی آہ و فریاد کی کہ جس سے پورا مجمع دہل گیا اور ہر طرف گریہ کی آوازیں بلند ہوگئیں اور مجلس پر لرزہ طاری ہوگیا ، آپ نے تھوڑی دیر انتظار کیا یہاں تک کہ لوگوں کی ہچکیاں رک گئیں اور رونے کی آوازیں دھیمی پڑگئیں ، آپ نے حمد و ثنائے الٰہی اور اس کے پیغمبر پر صلوات سے خطبہ کا آغاز کیا ۔ جس سے لوگوں کی آواز گریہ دوبارہ بلند ہوگئی ۔ جب سب خاموش ہوگئے تو آپ نے اپنے سلسلۂ کلام کا دوبارہ یوں آغاز کیا:
میں خدا كى نعمتوں پر اس كى ستائش کرتی ہوں اور اس كى توفیقات پر شكر ادا كرتى ہوں اس كى بے شمار نعمتوں پر اس كى حمد و ثنا بجالاتى ہوں وہ نعمتیں جن كى كوئی انتہا نہیں اور ان كى تلافى اور تدارك نہیں كیا جاسكتا، ان كى انتہا كا تصور كرنا ممكن بھی نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانیں اور ان كا شكر ادا كریں تاكہ اللہ تعالى مقامى نعمتوں كو اور زیادہ كرے۔
میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسکا کوئی شریک نہیں، توحید وہ كلمہ كہ اخلاص كو اس كى روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس كى گواہى دے تا كہ اس سے نظر و فكر روشن ہو، وہ خدا كہ جس كو آنكھ كے ذریعے دیكھا نہیں جاسكتا اور زبان كے ذریعے اس كى وصف اور توصیف نہیں كى جاسكتى وہ كس طرح كا ہے یہ وہم نہیں آسكتا۔ عالم كو عدم سے پیدا كیا ہے اور اس كے پیدا كرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنى مشیئت كے مطابق خلق كیا ہے۔ جہان كے پیا كرنے میں اسے اپنے كسى فائدے كے حاصل كرنے كا قصد نہ تھا۔ جہان كو پیدا كیا تا كہ اپنى حكمت اور علم كو ثابت كرے اور اپنى اطاعت كى یاد دہانى كرے، اور اپنى قدرت كا اظہار كرے، اور بندوں كو عبادت كے لئے برانگیختہ كرے، اور اپنى دعوت كو وسعت دے، اپنى اطاعت كے لئے جزاء مقرر كى اور نافرمانى كے لئے سزا معین فرمائی۔ تا كہ اپنے بندوں كو عذاب سے نجات دے اور بہشت كى طرف لے جائے۔
میں گواہى دیتى ہوں كہ میرے والد محمدؐ اللہ كے رسول اور اس كے بندے ہیں، پیغمبرى كے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان كو چنا اور قبل اس كے كہ اسے پیدا كرے ان كا نام محمّدؐ ركھا اور بعثت سے پہلے ان كا انتخاب اس وقت كیا جب كہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپى ہوئی تھى اور عدم كى سرحد سے ملى ہوئی تھی، چونكہ اللہ تعالى ہر شئی كے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان كے مقدرات كے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں معرفت حضرت فاطمۃ الزہراء (س) احادیث و خطبات کی روشنی میں
خدا نے محمدؐ كو مبعوث كیا تا كہ اپنے امر كو آخر تك پہنچائے اور اپنے حكم كو جارى كردے، اور اپنے مقصد كو عملى قرار دے۔ لوگ دین میں متفرق تھے اور كفر و جہالت كى آگ میں جل رہے تھے، بتوں كى پرستش كرتے تھے اور خداوند عالم كے دستورات كى طرف توجہ نہیں كرتے تھے۔
پس اللہ تعالی نے میرے باپ محمّدؐ كے وجود مبارك سے تاریكیاں منور کردیا اور جہالت اور نادانى دلوں سے دور کردیا، سرگردانى اور تحیر كے پردے آنكھوں سے ہٹا دیئے۔ میرے باپ لوگوں كى ہدایت كے لئے كھڑے ہوئے اور ان كو گمراہى سے نجات دلائی اور نابینا كو بینا كیا اور دین اسلام كى طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے كى طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر كى مہربانى اور اس كے اختیار اور رغبت سے اس كى روح قبض فرمائی۔ اب میرے باپ اس دنیا كى سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت كے عالم میں اللہ تعالى كے فرشتوں اور پروردگار كى رضایت كے ساتھ اللہ تعالى كے قرب میں زندگى بسر كر رہے ہیں، امین اور وحى كے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو۔
آپؑ نے اس كے بعد مجمع كو خطاب کرتے ہوئے فرمایا
لوگو تم اللہ تعالى كے امر اور نہى كے نمائندے اور نبوت كے دین اور علوم كے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئے، جن كو باقى اقوام تك دین كى تبلیغ كرنى ہے تم میں پیغمبرؐ كا حقیقى جانشین موجود ہے اللہ تعالى نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمكنے والانور ہے اس كى چشم بصیرت روش اور رتبے كے آرزومند ہیں اس كى پیروى كرنا انسان كو بہشت رضوان كى طرف ہدایت كرتا ہے اس كى باتوں كو سننا نجات كا سبب ہوتا ہے اس كے وجود كى بركت سے اللہ تعالى كے نورانى دلائل اور حجت كو دریافت كیا جاسكتا ہے اس كے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت كے قوانین كو حاصل كیا جاسكتا ہے۔
اللہ تعالى نے ایمان كو شرك سے پاك ہونے كا وسیلہ قرار دیا ہے۔۔ اللہ نے نماز واجب كى تا كہ تكبر سے روكاجائے زكوة كو وسعت رزق اور تہذیب نفس كے لئے واجب قرار دیا۔ روزے كو بندے كے اخلاص كے اثبات كے لئے واجب كیا۔ حج كو واجب كرنے سے دین كى بنیاد كو استوار كیا، عدالت كو زندگى كے نظم اور دلوں كى نزدیكى كے لئے ضرورى قرار دیا، اہلبیت كى اطاعت كو ملت اسلامى كے نظم كے لئے واجب قرار دیا اور امامت كے ذریعے اختلاف و افتراق كا سد باب كیا اور جہاد کو اسلام کے لئے عزت اور صبر کو اجر حاصل کرنے کے لیے مددگار قرار دیا۔
امر بالمعروف كو عمومى مصلحت كے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ كے ساتھ نیكى كو ان كے غضب سے مانع قرار دیا، اجل كے موخر ہونے اور نفوس كى زیادتى كے لئے صلہ رحمى كا دستور دیا، قتل نفس كو روكنے كے لئے قصاص كو واجب قرار دیا۔ نذر كے پورا كرنے كو گناہوں گا آمرزش كا سبب بنایا، ناپ تول میں دقت کو کم فروشی ختم کرنے کا سبب بنادیا۔
پلیدى سے محفوظ رہنے كى غرض سے شراب خورى پر پابندى لگائی، بہتان اور زنا كى نسبت دینے كى لعنت سے روكا، چورى نہ كرنے كو پاكى اور عفت كا سبب بتایا۔ اللہ تعالى كے ساتھ شرك، كو اخلاص كے ماتحت ممنوع قرار دیا۔ پس تقوى اور پرہیزگارى كو اپناؤ جسطرح اپنانے کا حق ہے۔ دنیا سے مسلمان ہوئے بغیر مت جانا، اللہ تعالى كے اوامر و نواہى كى اطاعت كرو، صرف علماء اور دانشمند خدا سے ڈرتے ہیں۔
پھر آپؑ نے فرمایا:
اے لوگو! جان لو میں فاطمہؑ ہوں اور میرے باپ محمدؐ ہیں، اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تك كے واقعات اور امور سے آگاہ كرتى ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئے میں جھوٹ نہیں بولتى اور گناہ كا ارتكاب نہیں كرتی۔ اللہ تعالى نے تمہارے لئے پیغمبرؐ جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہارى تكلیف سے اسے تكلیف ہوتى تھى اور وہ تم سے محبت كرتے تھے اور مومنین كے حق میں مہربان اور دل سوز تھے۔ لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہارى عورت كے باپ، میرے شوہر كے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں كے بھائی، كتنى عمدہ محمّدؐ سے نسبت ہے۔ جناب محمدؐ نے اپنى رسالت كو انجام دیا اور مشركوں كى راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان كى پشت پر سخت ضرب وارد كى ان كا گلا پكڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا كى طرف دعوت دی، بتوں كو توڑا اور ان كے سروں كو سرنگوں كیا كفار نے شكست كھائی اور شكست كھا كر بھاگے۔
تاریكیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین كے رہبر كى زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق كے پیروكار ہلاك ہوئے كفر اور اختلاف كے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت كى وجہ سے شہادت كا كلمہ جارى كیا، جب كہ تم دوزخ كے كنارے كھڑے تھے اور وہ ظالموں كا تر اور لذیذ لقمہ بن چكے تھے اور آگ كى تلاش كرنے والوں كے لئے مناسب شعلہ تھے۔ تم قبائل كے پاؤں كے نیچے ذلیل تھے گندا پانى پیتے تھے اور حیوانات كے چمڑوں اور درختوں كے پتوں سے غذا كھاتے تھے دوسروں كے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد كے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگى بسر كرتے تھے ان تمام بدبختیوں كے بعد خدا نے محمدؐ كے وجود كى بركت سے تمہیں نجات دى حالانكہ میرے باپ كو عربوں میں سے بہادر اور عرب كے بھیڑیوں اور اہل كتاب كے سركشوں سے واسطہ تھا۔
جتنا وہ جنگ كى آگ كو بھڑكاتے تھے خدا سے خاموش كردیتا تھا جب كوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشركوں میں سے كوئی بھى كھولتا تو محمدؐ اپنے بھائی على (ع) كو ان كے گلے میں اتار دیتے اور حضرت على (ع) ان كے سر اور مغز كو اپنى طاقت سے پائمال كردیتے اور جب تك ان كى روشن كى ہوئی آگ كو اپنى تلوار سے خاموش نہ كردیتے جنگ كے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ كى رضا كے لئے ان تمام سختیوں كا تحمل كرتے تھے اور خدا كى راہ میں جہاد كرتے تھے، اللہ كے رسول كے نزدیك تھے۔ على (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد كے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد كرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشى میں خوش و خرم زندگى گزار رہے تھے اور كسى خبر كے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن كے ساتھ لڑائی لڑنے سے اجتناب كرتے تھے اور جنگ كے وقت فرار كرجاتے تھے۔
یہ خبر بھی پڑھیں ام الشہداء حضرت فاطمہ زہراءؑ
جب خدا نے اپنے پیغمبر كو دوسرے پیغمبروں كى جگہ كى طرف منتقل كیا تو تمہارے اندرونى كینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین كا لباس كہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں كرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل كا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنى دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سركمین گاہ سے باہر نكالا اور تمہیں اس نے اپنى طرف دعوت دى اور تم نے بغیر سوچے اس كى دعوت قبول كرلى اور اس كا احترام كیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حركت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناك ہونے كا حكم دیا اور تم غضبناك ہوگئے۔ لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناكر اس جگہ بیٹھایا جو اس كى جگہ نہیں تھی، حالانكہ ابھى پیغمبرؐ كى موت كو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھى تك ہمارے دل كے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھى پیغمبرؐ كو دفن بھى نہیں كیا تھا كہ تم نے فتنے كے خوف كے بہانے سے خلافت پر قبضہ كرلیا، لیكن خبردار رہو كہ تم فتنے میں داخل ہوچكے ہو اور دوزخ نے كافروں كا احاطہ كر ركھا ہے۔
افسوس تمہیں كیا ہوگیا ہے اور كہاں چلے جارہے ہو؟ حالانكہ اللہ كى كتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس كے احكام واضح اور اس كے اوامر و نواہى ظاہر ہیں تم نے قرآن كى مخالفت كى اور اسے پس پشت ڈال دیا، كیا تمہارا ارادہ ہے كہ قرآن سے اعراض اور روگردانی كرلو؟ یا قرآن كے علاوہ كسى اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے كرتا چاہتے تو؟ لیكن تم كو علم ہونا چاہیئے كہ جو شخص بھى اسلام كے علاوہ كسى دوسرے دین كو اختیار كرے گا وہ قبول نہیں كیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
اتنا صبر بھى نہ كرسكے كہ وہ فتنے كى آگ كو خاموش كرے اور اس كى قیادت آسان ہوجائے بلكہ آگ كو تم نے روشن كیا اور شیطان كى دعوت كو قبول كرلیا اور دین كے چراغ اور سنت رسول خداؐ كے خاموش كرنے میں مشغول ہوگئے ہو۔ كام كو الٹا ظاہر كرتے ہو اور پیغمبرؐ كے اہلبیت كے ساتھ مكر و فریب كرتے ہو، تمہارے كام اس چھرى كے زخم اور نیزے كے زخم كى مانند ہیں جو پیٹ كے اندر واقع ہوئے ہوں۔ كیا تم یہ عقیدہ ركھتے ہو كہ ہم پیغمبرؐ سے میراث نہیں لے سكتے، كیا تم جاہلیت كے قوانین كى طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانكہ اسلام كے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، كیا تمہیں علم نہیں كہ میں رسول خداؐ كى بیٹى ہوں كیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب كى طرح یہ روشن ہے۔
مسلمانوں كیا یہ درست ہے كہ میں اپنے باپ كى میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبكر آیا خدا كى كتاب میں تو لكھا ہے كہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ كى میراث سے محروم رہوں؟ كیا خدا قرآن میں نہیں كہتا كہ سلیمان داود كے وارث ہوئے.وَ وَرِثَ سُلَیمانُ داوُدَ كیا قرآن میں یحیى علیہ السلام كا قول نقل نہیں ہوا كہ خدا سے انہوں نے عرض كى پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا كہ وہ میرا وارث قرار پائے او آل یعقوب كا بھى وارث ہو كیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا كہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں كے وارث ہوتے ہیں؟ كیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا كہ اللہ نے حكم دیا كہ لڑكے، لڑكیوں سے دوگنا ارث لیں؟ كیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا كہ تم پر مقرر كردیا كہ جب تمہارا كوئی موت كے نزدیك ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں كے لئے وصیت كرے كیونكہ پرہیزگاروں كے لئے ایسا كرنا عدالت كا مقتضى ہے۔
كیا تم گمان كرتے ہو كہ میں باپ سے نسبت نہیں ركھتی؟ كیا ارث والى آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم كرتے ہو جو دو مذہب كے ایك دوسرے سے میراث نہیں لے سكتے؟ كیا میں اور میرا باپ ایك دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد على (ع) سے قرآن كو بہتر سمجھتے ہو؟ اے ابوبكر فدك اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارك ہو، لیكن قیامت كے دن تم سے ملاقات كروں گى كہ جب حكم اور قضاوت كرنا خدا كے ہاتھ میں ہوگا اور محمدؐ بہترین پیشوا ہیں۔ اے قحافہ كے بیٹے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت كا دن ہے كہ جس دن بیہودہ لوگوں كا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا اور ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔
آپؑ اس كے بعد انصار كى طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا
اے ملت كے مددگار جوانو اور اسلام كى مدد كرنے والو كیوں حق كے ثابت كرنے میں سستى كر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ كیا میرے والد نے نہیں فرمایا كہ كسى كا احترام اس كى اولاد میں بھى محفوظ ہوتا ہے یعنى اس كے احترام كى وجہ سے اس كى اولاد كا احترام كیا كرو؟ كتنا جلدى فتنہ برپا كیا ہے تم نے؟ اور كتنى جلدى ہوى اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم كے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت ركھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ كے برلانے پر طاقت ركھتے ہو۔
كیا كہتے ہو كہ محمدؐ مرگئے؟ جى ہاں لیكن یہ ایك بہت بڑى مصیبت ہے كہ ہر روز اس كا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس كا خلل زیادہ ہو رہا ہے۔ آنجنابؐ كى غیبت سے زمین تاریك ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ كى مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبرؐ كے احترام كى رعایت نہیں كى گئی،
قسم خدا كى یہ ایک بہت بڑى مصیبت تھى كہ جس كى مثال ابھى تگ دیكھى نہیں گئی اللہ كى كتاب جو صبح اور شام كو پڑھى جا رہى ہے آپ كى اس مصیبت كى خبر دیتى ہے كہ پیغمبرؐ بھى عام لوگوں كى طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے كہ اور حضرت محمد ؐ نہیں ہیں مگر پیغمبر جن سے پہلے تمام پیغمبر گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جاؤگے اور جو کوئی الٹے پاؤں
پھرے گا تو وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور عنقریب خدا شکرگزار بندوں کو جزا دے گا۔
اے فرزندان قیلہ: (انصار کا گروہ)
کیا یہ مناسب ہے كہ میں باپ كى میراث سے محروم رہوں جب كہ تم یہ دیكھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میرى پكار تم تك پہنچ چكى ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہارى تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ كى آواز تم تك پہنچتى ہے لیكن تم اس پر لبیك نہیں كہتے میرى فریاد كو سنتے ہو لیكن میرى فریاد رسى نہیں كرتے تم بہادرى میں معروف اور نیكى اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ كى اولاد ہو تم ہم اہلبیت كے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں كے ساتھ تم نے جنگیں كیں اور سختیوں كو برداشت كیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی كى ہے جب ہم اٹھ كھڑے ہوتے تھے تم بھى اٹھ كھڑے ہوتے تھے ہم حكم دیتے تھے تم اطاعت كرتے تھے یہاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشركین تسلیم ہوگئے اور ان كا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا، کفر کی آگ بجھ گئی، ہرج و مرج کی صدائیں خاموش ہوگئیں اور دین كا نظام مستحكم ہوگیا، پھر کیوں اقرار کے بعد اپنے ایمان پر حیران ہوگئے؟ ظاہر ہونے کے بعد کیوں چھپ گئے؟ کیوں پیشقدمی کے بعد پیچھے لوٹ گئے اور ایمان کے بعد شرک انتخاب کیا؟ وای ہو ان لوگوں پر جنہوں نے عہد کے بعد اپنی قَسموں کو توڑ ڈالا پیغمبرؐ کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا اور پھر تمہارے برخلاف لڑائی میں پہل بھی کی۔ تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ زیادہ حقدار ہے اس بات کا کہ اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔
لوگو میں گویا دیكھ رہى ہوں كہ تم پستى كى طرف جارہے ہو، اس آدمى كو جو حكومت كرنے كا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ كر عیش اور نوش میں مشغول ہوگئے ہو زندگى اور جہاد كے وسیع میدان سے قرار كر كے راحت طلبى كے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو كچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كردیا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے اسے اگل دیا ہے لیكن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین كے لوگ كافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے۔ اے لوگو جو كچھ مجھے كہنا چاہیئے تھا میں نے كہہ دیا ہے حالانكہ میں جانتى ہوں كہ تم میرى مدد نہیں كروگے۔ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہیں، لیكن كیا كروں دل میں ایك درد تھا كہ جس كو میں نے بہت ناراحتى كے باوجود ظاہر كردیا ہے تا كہ تم پر حجت تمام ہوجائے۔ اب فدك اور خلافت كو خوب مضبوطى سے پكڑے ركھو لیكن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے كہ اس میں مشكلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس كا ننگ و عار ہمیشہ كے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہ جائے گا، اللہ تعالى كا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس كى جزا جہنم كى آگ ہوگى اللہ تعالى تمہارے كردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال كے نتائج دیكھ لیں گے۔ لوگو میں تمہارے اس نبى كى بیٹى ہوں كہ جو تمہیں اللہ كے عذاب سے ڈراتا تھا۔ جو كچھ كرسكتے ہو اسے انجام دو ہم بھى تم سے انتقام لیں گے تم بھى انتظار كرو ہم بھى منتظر ہیں۔
اس کے جوا ب میں ابو بکر (عبد اللہ بن عثمان)نے یوں جواب دیتے ہوئے کہا:
دختر رسول خداؐ: آپ کے بابا مومنین پر بہت مہربان۔رحم وکرم کرنے والے اور صاحب عطوفت تھے۔وہ کافروں کے لئے دردناک عذاب اور سخت ترین قہرالہی تھے۔آپ اگر ان کی نسبتوں پر غور کریں تو وہ تمام عورتوں میں صرف آپ کے باپ تھے اور تمام چاہنے والوں میں صرف آپ کے شوہر کے چاہنے والے تھے اور انھوں نے بھی ہر سخت مر حلہ پر نبیؐ کا سا تھ دیا ہے۔آپ کا دوست نیک بخت اور سعید انسان کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا ہے او ر آ پ کا دشمن شقی اور بد بخت کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ آپ رسول اکرمؐ کی پاکیزہ عترت اور ان کے منتخب پسندیدہ افراد ہیں۔آپ ہی حضرات راہ خیر میں ہمارے رہنما اور جنت کی طرف ہمیں لے جانے والے ہیں۔اور خود آپ اے تمام خواتین عالم میں منتخب اور خیر الانبیاء کی دختر۔یقیناًاپنے کلام میں صادق اور کمال عقل میں سب پر مقدم ہیں۔آپ کو نہ آپ کے حق سے روکا جا سکتا ہے اور نہ آپ کی صداقت کا انکار کیا جا سکتا ہے مگر خدا کی قسم میں نے رسولؐ کی رأے میں عدول نہیں کیا ہے اور نہ کو ئی کام ان کی اجازت کے بغیر کیا ہے اور میر کارواں قافلہ سے خیانت بھی نہیں کر سکتا ہے۔میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں اور وہی گواہی کے لئے کافی ہے کہ میں نے خود رسول اکرمؐ سے سنا ہے کہ ہم گر وہ انبیأ ۔سونے چاندی اور خانہ وجایداد کا مالک نہیں بناتے ہیں۔ہماری وراثت کتاب، حکمت، علم و نبوت ہے اور جو کچھ مال دنیا ہم سے بچ جاتا ہے وہ ہمارے بعد ولی امر کے اختیار میں ہوتا ہے۔وہ جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہے۔
اور میں نے آپ کے تمام مطلوبہ اموال کو سامان جنگ کے لئے مخصوص کر دیا ہے جس کے ذریعہ مسلمان کفار سے جہاد کریں گے اور سرکش فاجروں سے مقابلہ کریں گے اور یہ کام مسلمانوں کے اتفاق رأے سے کیا ہے(۶) ۔یہ تنہا میری رأے نہیں ہیں اور نہ میں نے ذاتی طور پر طے کیا ہے۔ یہ میرا ذاتی مال اور سرمایہ آپ کے لئے حاضر ہے اور آپ کی خدمت میں ہے جس میں کو ئی کوتاہی نہیں کی جا سکتی ہے۔ آپ تو اپنے باپ کی امت کی سردار ہیں اور اپنی اولاد کے لئے شجرۂ طیبہ ہیں۔آپ کے فضل وشرف کا انکار نہیں کیا جا سکتاہے اور آپ کے اصل و فرع کو گرایا نہیں جا سکتا ہے۔آپ کا حکم تو میری تمام املاک میں بھی نافذ ہے تو کیسے ممکن ہے میں اس مألہ میں آپ کے بابا کی مخالفت کر دوں؟
یہ سن کر جناب فاطمہ زہرا ؑ نے فرمایا:
سبحان اللہ۔ نہ میرا باپ احکام خدا سے روکنے والا تھا اور نہ اس کا مخالف تھا۔وہ آثار قرآن کا اتباع کرتا تھا اور اس کے سوروں کے ساتھ چلتا تھا۔ کیا تم لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ اپنی غداری کا الزام اسکے سر ڈال دو۔ یہ ان کے انتقال کے بعد ایسی ہی سازش ہے جیسی ان کی زندگی میں کی گئی تھی۔ دیکھو یہ کتاب خدا حاکم عادل اور قول فیصل ہے جو اعلان کر رہی ہے کہ خدایا وہ ولی دیدے جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی وارث ہو اورسلمان ؑ داؤدؑ کے وارث ہوئے۔
خدائے عز و جل نے تمام حصے اور فرا ئض کے تمام احکام بیان کر دیے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق کی بھی وضاحت کر دی ہے اور اس طرح تمام اہل باطل کے بہانوں کو باطل کر دیا ہے اور قیامت تک کے تمام شبہات اور خیالات کو ختم کر دیا ہے۔ یقینایہ تم لوگوں کے نفس نے ایک بات گڑھ لی ہے تو اب میں بھی صبر جمیل سے کام لے رہی ہوں اور اللہ ہی تمہارے بیانات کے بارے میں میرا مدد گار ہے۔
(اس کے بعد ابوبکر نے کہا) اللہ، رسولؐ اور رسولؐ کی بیٹی سب سچے ہیں۔آپ حکمت کے معادن، ہدایت ورحمت کا مرکز، دین کے رکن ، حجت خدا کا سر چشمہ ہیں۔میں نہ آپ کے حرف راست کو دور پھینک سکتا ہوں اور نہ آپ کے بیان کا انکار کر سکتا ہوں۔مگر یہ ہمارے اورآپ کے سامنے مسلمان ہیں۔جنہوں نے مجھے خلافت کی ذمہ داری دی ہے اور میں نے ان کے اتفاق رائے سے یہ عہدہ سنبھالا ہے۔اس میں نہ میری بڑائی شامل ہے نہ خود رائی اور نہ شوق حکومت۔ یہ سب میری اس بات کے گواہ ہیں۔
جسے سن کر جناب فاطمہ زہراؑ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اورفرمایا:
اے گروہ مسلمین جو حرف باطل کی طرف تیزی سے سبقت کرنے والے اور فعل قبیح سے چشم پوشی کرنے والے ہو۔ کیا تم قرآن پر غور نہیں کرتے ہواور کیا تمھارے دلوں پر تالے پڑے ہؤے ہیں۔یقیناًتمھارے اعمال نے تمھارے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے اور تمھاری سماعت اور بصارت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔تم نے بد ترین تاویل سے کام لیا ہے۔
اور بدترین راستہ کی نشان دہی کی ہے اور بد ترین معاوضہ پر سودا کیا ہے۔ عنقریب تم اس بوجھ کی سنگینی کا احساس کرو گے اور اس کے انجام کو بہت درد ناک پاؤ گے جب پردے اٹھا ئے جائیں گے اور پس پردہ کے نقصانات سامنے آجا ئیں گے اور خدا کی طرف سے وہ چیزیں سامنے آجأے گی جن کا تمھیں وہم گمان بھی نہیں ہے اور اہل باطل خسارہ کو بر داشت کریں گے۔
پھر جناب فاطمہ زہراؑرسول خدا ﷺ کی قبر کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
بابا آپؐ کے بعد بڑی نئی نئی خبریں اور مصیبتیں سامنے آئیں کہ اگر آپ سامنے ہوتے تو مصائب کی یہ کثرت نہ ہوتی۔ ہم نے آپ کو ویسے ہی کھو دیا جیسے زمین ابر کرم سے محروم ہو جأے۔ اور اب آپ کی قوم بالکل ہی منحرف ہوگئی ہے۔
ذرا آپ آکر دیکھ تو لیں دنیا کا جو خاندان خدا کی نگاہ میں قرب ومنزلت رکھتا ہے وہ دوسروں کی نگاہ میں محترم ہوتا ہے مگر ہمارا کوئی احترام نہیں ہے کچھ لوگوں نے اپنے دل کے کینوں کا اس وقت اظہار کیا جب آپ اس دنیا سے چلے گئے اور میرے اورآپ کے درمیان خاک قبر حائل ہوگئی۔لوگوں نے ہمارے اوپر ہجوم کرلیا اور آپ کے بعد ہم کو بے قدر وقیمت سمجھ کر ہماری میراث کو ہضم کر لیا۔ آپ کی حیثیت ایک بدر کامل اور نور مجسم کی تھی جس سے روشنی حاصل کی جاتی تھی اور اس پر ربِّ عزت کے پیغامات نازل ہوتے تھے۔
جبریل آیات الہی سے ہمارے لئے سامان انس فراہم کرتے تھے مگر آپ کیا گئے کہ ساری نیکیاں پس پردہ چلی گئیں۔ کاش مجھے آپ سے پہلے موت آگئی ہوتی اور میں آپ کے اور اپنے درمیان خاک کے حائل ہونے سے پہلے مر گئی ہوتی۔