
ضلع کرم کی تازہ ترین صورتحال
شیعہ نیوز:پولیس اہلکار کے مطابق اتوار کو کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا ہے جب مندروی کے علاقے، جو بگن سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، سے ایک بڑے لشکر نے اچانک علی زئی گاؤں کی طرف پیش قدمی کا آغاز کیا ہے۔
مقامی پولیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مندروی سے روانہ ہونے والے اِس لشکر نے پہلے علی زئی کی داخلی حدود میں موجود دو گاؤں ’جیلامئی‘ اور ’چار دیوار‘ پر حملہ کیا جہاں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے ہونے والی شدید لڑائی کے بعد مسلح لشکر نے ان دونوں گاؤں پر قبضہ کر لیا۔
مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اب یہ مسلح لشکر تیزی سے علی زئی کی طرف بڑھ رہا ہے جب کہ اس لشکر میں موجود افراد کے پاس بھاری ہتھیار بھی موجود ہیں جبکہ علی زئی کے سرحدی علاقوں میں موجود مورچوں سے اس لشکر پر شدید فائرنگ کی جا رہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کرم کے دفتر کے مطابق اِس وقت علی زئی کے قریب کے علاقوں سے شدید جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ تاہم نہ تو پولیس اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان تازہ جھڑپوں میں ہونے والے جانی نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
علی زئی کے مقامی رہائشی اور مشر سید حسین کے مطابق مندروری سے چلنے والے مسلح لشکر نے علی زئی کے دو گاؤں پر اتوار کی صبح کے اوقات میں حملہ کیا تھا جہاں پر مقامی لوگوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ ہوا ہے۔
سید حسین کے مطابق اب یہ مسلح لشکر علی زئی کی طرف بڑھ رہا ہے جسے مورچوں میں موجود مسلح افراد کی جانب سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سید حسین کے مطابق اگر یہ لشکر اِسی طرح بڑھتا رہا تو ممکنہ طور پر علی زئی پہنچنے پر بہت زیادہ خون خرابہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ہنگو پولیس نے تصدیق کی ہے مشتعل مظاہرین نے ہنگو سے کوہاٹ آنے والی روڈ کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ہنگو پولیس کے مطابق گاڑیاں اس وقت متبادل روڈ کو استعمال کر رہی ہیں جہاں پر ٹریفک شدید متاثر ہے۔
پولیس کے مطابق اس سڑک کو ہنگو پھاٹک کے مقام پر بند کیا گیا ہے جہاں مظاہرین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ کرم میں فوجی آپریشن کرکے تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متحارب قبائل کے درمیان جنگ بندی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ صوبائی حکومت کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے سنیچر کو بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی کی ہدایت پر ایک اعلیٰ سطحی حکومتی وفد قبائلی عمائدین اور مشران سے جرگہ کر رہا ہے۔
ن کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیرسٹر سیف نے بتایا تھا کہ ابتدائی طور پر حکومتی وفد کی اہل تشیع کے رہنماؤں سے مفصل ملاقاتیں ہوئیں جس کے دوران مثبت گفتگو ہوئی ہے اور اب اگلے مرحلے میں اہل سنت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی جا رہی ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح دونوں فریقین کے درمیان سیز فائر کروا کر پائیدار امن قائم کرنا ہے۔
کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا تھا کہ کرم میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ قبائلی رہنماؤں سے مدد حاصل کی جا رہی ہیں۔