مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

وحدتِ اسلامی کا فقدان امتِ مسلمہ کی تمام مشکلات کی اصلی وجہ ہے

شیعہ نیوز: آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے جشن عید میلاد النبی (ص)، یوم ولادت حضرت امام جعفر الصادق (ع) اور 12 تا 17 ربیع الاوّل ہفتۂ وحدتِ اسلامی کی مناسبت سے قوم سے خصوصی خطاب کیا ہے۔ قومی ٹیلیویژن نیٹورک پر اپنے خطاب میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ہفتۂ وحدت اور حضرت پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کے جشن ولادت کے حوالے سے عظیم اسلامی امت اور ایرانی قوم کو مبارک دیتے ہوئے، وحدتِ اسلامی کو دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش مشکلات کا واحد حل قرار دیا۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بڑھتے امریکی مطالبات کے مقابلے میں بھرپور مزاحمتی سیاست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی درست حساب کتاب پر مبنی سیاست میں امریکہ کے اندر کسی شخص کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں حضرت نبی اکرم (ص) کے بارے نازل ہونے والی قرآن کریم کی متعدد آیات کو آج کی انسانی صورتحال کے ساتھ انتہائی سازگار قرار دیا اور کہا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ لوگوں کا درد و رنج حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے لئے انتہائی سخت ہے جبکہ آج کا انسانی معاشرہ پہلے کسی بھی وقت سے بڑھ کر دکھ درد کا شکار ہے جس کے باعث حضرت رسول خدا (ص) کی روح مطہر بھی آزردہ خاطر ہونے کے ساتھ ساتھ مہربان باپ کے مانند انسانی معاشروں کی ہدایت اور فلاح و بہبود کے لئے کوشاں ہے۔

انہوں نے دنیا میں بے انصافی، جنگیں بھڑکانے، شرارتوں اور اقوام عالم کی ثروت کو لوٹنے کے مذموم مقاصد کے لئے عالمی مستکبرین کی جانب سے علم و ٹیکنالوجی سے اٹھائے جانے والے غلط فائدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (تاریخ کے) فرعون کا ظلم و ستم صرف مصر کے اندر محدود تھا جبکہ آج کا عالمی فرعون یعنی امریکہ علمی ترقی سے استفادہ کرتے ہوئے دوسرے ممالک پر لشکر کشی کر کے ان ممالک میں جنگ، عدم تحفظ اور لوٹ مار کو رواج دے دیتا ہے۔

رہبر انقلاب نے اسلام سے عالمی اسکتبار و صیہونی ازم کی کھلی دشمنی اور ہمہ جانبہ مخالفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس خبیثانہ دشمنی کا آخری نمونہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نورانی چہرے کی جانب ’’خاکوں‘‘ کی شکل میں دیا جانے والا دشنام اور فرانسیسی صدر کی جانب سے اس گھناؤنے اقدام کی حمایت تھی جس نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس جیسے مسائل کے پیچھے ہمیشہ خفیہ ہاتھ ہوتے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک انسان مارا گیا ہے، خوب؛ اس کے لئے افسوس اور محبت کا اظہار کیجئے لیکن آپ ان خبیثانہ خاکوں کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی حکومت سمیت بعض ممالک کی جانب سے (توہین آمیز خاکوں کی) یہ تلخ و بھدی حمایت ظاہر کرتی ہے کہ اس توہین آمیز اقدام کے پیچھے، پرانے زمانوں کے مانند باقاعدہ ایک ادارہ اور منصوبہ بندی موجود ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے جواب میں پوری دنیا پر مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے وسیع احتجاج کو امتِ مسلمہ کے زندہ ہونے کی علامت قرار دیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر حکومتوں کے برخلاف، اسلامی دنیا کے بعض حکمرانوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے گھٹیاپن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس گھناؤنے اقدام پر اعتراض تک نہیں کیا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے توہین آمیز خاکوں کی حمایت پر اپنے اقدام کو آزادیِ اظہارِ رائے اور انسانی حقوق کے ساتھ نتھی کرنے کی فرانسیسی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسی حکومت جو برملا یہ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے دسیوں ایرانی حکام سمیت دنیا بھر کے ہزاروں انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والی دہشت گرد تنظیم کو اپنے ملک میں جگہ دے رکھی ہے، (ایران پرِ) مسلط کردہ جنگ کے دوران اس نے خونخوار بھیڑیئے ’’صدام‘‘ کو سب سے بڑھ کر مدد فراہم کی ہے اور ’’ہفتے کے دن کے احتجاجی سلسلے‘‘ کو شدید ترین طریقے سے کچل کر رکھ دیا ہے؛ آج آزادی اور انسانی حقوق کا نعرہ لگاتی ہے!!

رہبر انقلاب نے فرانسیسی صدر و حکومت کی جانب سے فرانسیسی کارٹونسٹ کے ثقافتی بربریت پر مبنی گھناؤنے اقدام کی کھلی حمایت اور ایران مخالف دہشت گردوں (منافقینِ خلق) و صدام حسین کو حاصل کھلی فرانسیسی مدد کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا اور کہا کہ حالیہ مسئلہ اور امریکہ و یورپی ممالک میں چند سال قبل رونما ہونے والے قرآن کریم و حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی توہین پر مبنی اقدامات، مغربی تمدن کی تاریک و وحشی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ البتہ بالکل ویسے ہی جیسے مکہ و طائف کے بدمعاش اسلام کے آغاز میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس نام کو چھپانے میں ناکام رہے تھے؛ آج کے یہ گھناؤنے اقدامات بھی کسی طور کامیاب ہوں گے اور نہ ہی خاتم المرسلین (ص) کی شرافت، جلالت اور عظمت کو کوئی نقصان پہنچا پائیں گے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں ہفتۂ وحدت کی اہمیت کے درک نہ کئے جانے پر روشنی ڈالتے ہوئے شام، عراق، لیبیا، یمن اور افغانستان جیسے اسلامی ممالک کے خونی واقعات کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اُس وقت جب امام خمینیؒ نے حضرت خاتم النبیین (ص) کے میلاد مبارک کے ایام کو ہفتۃ وحدت کے طور پر اعلان کیا تھا، بہت سوں کو اس اقدام کی گہرائی و اہمیت کی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن آج یہ بات روز روشن کی طرف واضح ہو چکی ہے کہ اسلامی دنیا کی وحدت کس قدر گرانقیمت ہے اور اگر یہ حاصل ہو جاتی تو خطے کے اندر وجود میں آنے والے بہت سے اختلافات اور خونی جنگوں کو روک سکتی تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے بعض ممالک کی جانب سے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری پر مبنی خبیثانہ اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدعنوان لوگ اپنے ذلت آمیز اقدامات پر نہ صرف خوشی کا اظہار کرتے نہیں تھکتے بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں؛ تاہم انہیں جان لینا چاہئے کہ یہ اس قابل نہیں کہ مسئلۂ فلسطین کو سرے سے ختم کر سکیں درحالیکہ بیشک غاصب، قاتل اور مجرم رژیم سرے سے ختم ہونے والی اور فلسطین فلسطینیوں کو واپس ملنے والا ہے!

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بدقسمتی کے ساتھ اُس وقت ’’عمومی موقف میں اسلامی مذاہب کی وحدت‘‘ پر مبنی امام خمینیؒ کے انیشی ایٹو کو امتِ مسلمہ کی طرف سے صحیح طور پر سمجھا نہیں جا سکا تھا جبکہ دشمن نے اُس سے اپنے اثرورسوخ کے کم ہو جانے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے مقابلے کے لئے عملی منصوبے بنائے اور لاگو بھی کئے۔ انہوں نے ’’اتحاد مخالف نظریات وجود میں لانے کے مراکز کے کھولے جانے‘‘، داعش جیسے تکفیری گروہوں کی تشکیل اور غافل لوگوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیئے جانے کو وحدت کے خاتمے پر مبنی دشمن کے عملی منصوبوں کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ دہشتگردوں کو مالی و اسلحہ جاتی مدد فراہم کرنے والی خطے کی بعض حکومتوں اور ان کے سربراہوں کا گناہ، اپنے تعصب و جہالت کے سبب ان (دہشتگرد) گروہوں کے ساتھ ملنے والے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے جبکہ اس گناہ کے اصلی مجرم امریکہ و سعودی عرب ہیں۔

رہبر انقلاب نے افغانستان، عراق و شام سمیت مختلف اسلامی ممالک پر لشکر کشی کو امریکہ کا ایک اور جرم قرار دیا اور کہا کہ عراقی غیرتمند جوان امریکی دراندازی کو کسی طور قبول نہیں کریں گے کیونکہ دنیا کے کسی بھی مقام پر امریکی موجودگی کا نتیجہ عدم تحفظ، تخریبکاری، خانہ جنگی اور حکومتوں کو (اندرونی مسائل میں) الجھائے رکھنے کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ انہوں نے امتِ مسلمہ کی باہمی وحدت کو "یمن پر مسلط کردہ 5 سالہ سعودی جنگ اور کچھ عرب حکومتوں کی جانب سے مسئلۂ فلسطین کو پس پشت ڈال دینے کے اقدامات” سمیت عالم اسلام کے تمام تلخ حوادث کا علاج قرار دیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی اقوام و حکومتوں کی کشمیر سے لے کر لیبیا تک کی تمام مشکلات ’’وحدتِ اسلامی‘‘ کی برکات سے برطرف ہو جائیں گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 13 آبان (4 نومبر 1979ء) کے روز یونیورسٹی طلباء کے ہاتھوں تہران میں واقع امریکی جاسوسی کے اڈے (سفارتخانے) پر قبضے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن ایرانی قوم کی استکبار دشمنی کی واضح علامت جبکہ(جاسوسی کے امریکی اڈے پر قبضے پر مبنی) طلباء کا یہ کارنامہ عالمی استکبار سے مقابلے کا نمونہ اور درست اقدام تھا۔ انہوں نے امریکہ کی استکباری حکومت کو جنگ کی پیاسی، دہشت گرد و دہشت گرد پرور، دراندازی کرنے والی اور کرپٹ قرار دیا اور کہا کہ ایسے رجحان کے خلاف طلباء کا اقدام عین عقلانیت تھا جبکہ اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور زورزبردستی کو برداشت کرنا عقل سے منافی ہے۔ رہبر انقلاب نے 4 نومبر 1979ء (۱۳ آبان) کی طلباء کی تحریک کو مکمل طور پر دفاعی اور عقل کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے خلاف اقدامات میں ہم نے پہل نہیں کی بلکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ (امریکی ہی) تھے جنہوں نے کانگریس میں قراردادیں پاس کر کے، (ایران میں) دہشت گرد گروہ تشکیل دے کر، یہاں (منتخب حکومت کے خلاف) فوجی بغاوت کا منصوبہ تیار کر کے، پھر اس کی حمایت کر کے اور اپنے سفارت خانے کے اندر وسیع پیمانے پر جاسوسی نیٹ ورک تشکیل دے کر ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی میں پہل کی ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے بھیانک نتائج کی حامل امریکی دوستی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض کا خیال ہے کہ اگر کوئی حکومت امریکی خواہشات و سیاست کو تسلیم کر لے تو یوں اُسے فائدہ پہنچے گا درحالیکہ امریکی زورزبردستی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والی حکومتوں نے تاریخ میں سب سے بڑھ کر نقصان اٹھایا ہے اور انہیں پیش آنے والی مشکلات سب سے بڑی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ ایرانی سیاست انتہائی نپی تلی اور درست حساب پر مبنی ہے جبکہ امریکہ میں کسی شخص کے آنے یا چلے جانے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کہا کہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے آنے یا جانے سے کہیں کوئی تبدیلی آتی ہو لیکن اس تبدیلی کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایران کی سیاست پر اس کا کوئی اثر ہے۔ انہوں نے آج کے امریکی حالات کو دیکھنے کے قابل قرار دیا اور کہا کہ اس وقت وہاں (امریکہ میں) ایک ایسا صدر موجود ہے جو انتخابات منعقد کروانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ امریکہ کے یہ انتخابات سب سے زیادہ جعلی ہیں جبکہ دوسری طرف اس کا حریف بھی اعلان کر رہا ہے کہ ٹرمپ انتخابات میں وسیع دھاندلی کا ارادہ رکھتا ہے!

رہبر انقلاب نے موجودہ امریکی صورتحال کو لبرل ڈیموکریسی کا کریہہ چہرہ قرار دیا اور کہا کہ اس بات سے ہٹ کر کہ امریکہ میں کون حکومت بناتا ہے، موجودہ صورتحال معاشرتی، سیاسی و اخلاقی میدانوں میں امریکہ کے شدید انحطاط کو ظاہر کرتی ہے جبکہ امریکی مفکر اس بات کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ایسے سیاسی نظام کا نتیجہ اضمحلال اور تباہی قرار دیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ البتہ بعض افراد کے حکومت میں آ جانے سے یہ تباہی جلد وقوع پذیر ہو جاتی ہے جبکہ کسی دوسرے کے حکومت سنبھالنے سے یہ تباہی شاید کچھ عرصے کے بعد وقوع پذیر ہو تاہم (اس نظام کا) حتمی انجام بربادی ہے۔ انہوں نے ایران کے اسلامی نظام حکومت کے ساتھ امریکی دشمنی کی اصلی وجہ "ظالمانہ سیاست کو قبول نہ کرنا” اور "ان کے تسلط کو تسلیم نہ کرنا” قرار دیا اور تاکید کی کہ یہ دشمنی مزید بڑھے گی جبکہ اس کے خاتمے کا واحد رستہ یہ ہے کہ دشمن اپنی اس خام خیالی میں مایوس ہو جائے کہ وہ ایران پر کوئی کاری ضرب لگا سکتا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں نوگورنو-قرہ باغ کے متنازع علاقے پر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والے فوجی تصادم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ اس تلخ حادثے نے پورے خطے کے امن و امان کو خطرہ لاحق کر رکھا ہے اور کہا کہ یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جانا چاہئے اور آذربائیجان کی تمام سرزمین جو آرمینیا کے قبضے میں ہے، آزاد ہو کر آذربائیجان کو واپس مل جانا چاہئے! آیت اللہ خامنہ ای نے آرمینیائی باشندوں کی سلامتی اور دونوں فریقوں کی جانب سے بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ متعدد قابل اطمینان رپورٹوں کے مطابق؛ اس علاقے کے اندر داخل ہونے والے دہشت گرد کسی طور ایرانی سرحدوں کے قریب نہ آئیں اور اگر انہوں نے (ایرانی) سرحدوں کے قریب آنے کی کوشش کی تو ان کو فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button