مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

لاہور کا سی بی ڈی۔۔۔۔ امریکی جاسوسی کا بڑا اڈا؟

تحریر: سید عظیم سبزواری

سردیوں میں پاکستان کا چکر لگا تو پاکستان میں پراپرٹی کے معروف ادارے ’’زمین ڈاٹ کام‘‘ سے ایک مارکیٹنگ آفیسر نے رابطہ کیا کہ اس پروجیکٹ میں کچھ فلیٹ ہیں، اگر آپ کو دلچسپی ہو تو ہم آپ کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ مجھے موبی لنک کے دفتر اور محمدی مسجد جانا تھا تو جو بیچ کا ٹائم تھا، وہ میں غالب روڈ بالمقابل حفیظ سنٹر پر ’’زمین ڈاٹ کام‘‘ کے دفتر چلا گیا۔ جانے کی وجہ تھی کہ ناروے میں ایک صاحب نے مجھے کہا تھا کہ پاکستان مین فلیٹ لینا چاہتا ہوں، کوئی مشورہ دیں۔ ایک تو اُن کیلئے معلومات اور دوسرا میں خود بھی اس پروجیکٹ کو سمجھنا چاہ رہا تھا کہ لاہور کے قلب میں ایک دم کہاں سے اتنی جگہ نکال کر یہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے کہ جس کی وجہ سے بڑی شاہراہوں کے راستے بھی تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔

خیر مارکیٹنگ آفیسر نے چائے وغیرہ پلانے کیساتھ اپنے باس کو بھی بُلا لیا اور ایک میٹنگ روم میں لیپ ٹاپ کھول کر سکرین پر پراجیکٹ کا نقشہ دکھانے لگے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ء2005 والے دبئی میں ہوں کہ جب دبئی کی پراپرٹی اٹھنا شروع ہوئی تھی تو ایسے ہی وہ پیش کیا کرتے تھے۔ وہی الفاظ، وہی لالچ، وہی میٹھا پن۔ باتیں کرتے کرتے اور مجھے فلیٹ لینے کے فوائد بتاتے بتاتے وہ یکدم کہنے لگے "سر یہاں کی سکیورٹی کا کمال یہ ہے کہ ادھر امریکی قونصلیٹ کا بہت بڑا مرکز ہوگا، جو شملہ پہاڑی سے ادھر شفٹ ہوں گے۔ اس کا اتنا کہنا تھا کہ میں چائے پیتے پیتے رُک گیا۔ میں نے کہا ایسی جگہ پر تو میں کبھی فلیٹ نہیں لوں گا۔ وہ تین افراد ایک دم چُپ ہوگئے اور پھر ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے، ایک نے سوال کر ڈالا کہ کیوں۔؟

میں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ یہاں پر بم دھماکے کا خطرہ ہوگا، روز کسی پروٹوکول یا سکیورٹی کے چکر میں راستہ بند ہوگا۔ اس سب کے علاؤہ موبائل فون سگنلز بند ہونے کیساتھ ساتھ ہم ہروقت جاسوسی آلات کی نظر میں ہوں گے، جیسے شملہ پہاڑی کے ارد گرد رہنے والے محسوس کرتے ہیں۔ خیر ان بچاروں کو یہ بات کچھ اوپر سے گزر گئی اور کچھ سمجھ آئی تو اس کو "ارے نہیں نہیں سر۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا، فکر نہ کریں” کہہ کر بات کو گول کر دیا۔ میں نے نقشہ دوبارہ دیکھنا شروع کیا تو سمجھ آیا کہ یہ لاہور شہر کی بالکل وسط میں جگہ امریکیوں کو ملی ہے، یعنی ایک طرف کینٹ کا حساس علاقہ، ساتھ کلمہ چوک اور دوسری جانب نیوی وار کالج۔ اس کے ساتھ ہی ایک جہازوں کے اترنے اور پرواز کرنے کیلئے فلائنگ کالج یا پرانے والٹن ائیرپورٹ کی پٹی بھی ہے، جو کہ امریکیوں کیلئے فوجیں اتارنے یا جیسے ویتنام یا کبل سے بھاگے تھے، اس طرح کی ایمرجنسی میں فرار ہونے کیلئے بھی کا کام دے گی۔

یہ چیز 8 مئی 2025ء کو بھارت کی جانب سے آپریشن سندور کے بعد بھی دیکھنے میں آئی، جب امریکیوں نے لاہور میں مقیم اپنے افراد کو الرٹ رہنے کو کہا اور ہدایات ملنے پر فوری لاہور ائیرپورٹ کی طرف جانے کا حکم دیا گیا۔ اگر حالات زیادہ شدت اختیار کرتے تو یہ امریکی فوراً راہ فرار اختیار کرتے۔ بہرحال پراپرٹی ڈیلروں کی اس میٹنگ کے بعد میں نے کچھ مزید معلومات آن لائین پڑھیں تو حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ ان کو یہاں پنجاب حکومت اور دیگر طاقتور شخصیات منت سماجت کرکے لائے ہیں۔ تاکہ اس منصوبہ کو کامیاب کیا جاسکے اور اس پر کوئی آواز نہ اٹھائے۔ امریکی قونصل خانے کو صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ سو کنال کی جگہ دی گئی ہے۔ سی بی ڈی کا کُل 900 کنال کا رقبہ ہے اور اس میں سے پورا ایک سو کنال امریکہ کو دیا گیا ہے۔ وہ بھی سارا پنجاب حکومت کے خرچ پر۔ سی بی ڈی میں امریکی قونصلیٹ کی یہ جگہ موجودہ شملہ پہاڑی کے احاطے سے 10 گنا بڑی ہے۔

خود سی بی ڈی پنجاب بھی تنازعہ سے خالی نہیں۔ دیگر منصوبوں کی طرح پنجاب حکومت کا یہ منصوبہ بھی حساسیت کا شکار ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے اس پر کام رکوا دیا تھا۔ اس میں مالی عنوان سے شفافیت نہیں۔ کرپشن اور بے ضابطگیوں کے معاملات الگ ہیں۔ یہاں سوال ہے کہ امریکہ کو لاہور میں اتنے بڑے قونصلیٹ کی کیا ضرورت ہے۔؟ یہ سب کام ہماری جیب سے کیوں ہو رہا ہے۔؟ یہ سب کچھ ایسی حساس تنصیبات کے پاس ہی کیوں بن رہا ہے۔؟ یہ اس سب کے علاؤہ ہے کہ جہاں پاکستان کی معدنیات کا سودا سٹیو وٹکوف موجودہ امریکی نمائندہ خصوصی کے بیٹے کیساتھ طے پا رہا ہے اور پاکستان کی کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ بھی اس کے ہاتھ میں دی جا رہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور میڈیا ملک کے استحصال اور کھلی لوٹ مار پر جانے کیوں چپ ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button