اہم پاکستانی خبریںہفتہ کی اہم خبریں

لاہور، مذہبی و سیاسی جماعتوں نے وقف ترمیمی پراپرٹیز ایکٹ مسترد کر دیا

شیعہ نیوز: ملک کی چالیس سے زائد مذہبی، سیاسی جماعتوں اور رفاعی اداروں کی آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں وقف پراپرٹیز ترمیمی ایکٹ 2020ء وقاف بل کو مداخلت فی الدین قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20.31 اور 227 کے مطابق ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اپنے مذہب و مسلک کی ترویج و اشاعت اور فروغِ کے لیے مذہبی ادارے قائم کرے اور ان کا انتظام انصرام کرے۔ ریاست مساجد، مزارات اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے کام کرنے والے اداروں کو تحفظ دینے کی پابند ہے۔ ایسی کوئی قانون سازی قرآن و سنت و آئین پاکستان کے منافی نہیں ہوسکتی۔ ان ترامیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ڈونر حضرات کو ان کے اثاثہ جات بنک اکاونٹس کی تفصیلات پوچھ کر ہراساں کر دیا جائے اور عطیات دنیا بند کر دیں۔ مساجد، مدارس اور فلاحی ادارے ویران ہو جائیں۔ دراصل بیورو کریسی اور حکومت یہ چاہتی کہ دین کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے، تاکہ سرکاری فتوے جاری ہوں، سرکاری خطبہ ہو اور ملک کو بادشاہت کی طرز پر چلایا جائے۔ نظام مصطفیٰ پارٹی اور مرکزی جماعت اہل سنت کے زیر اہتمام پیر عبدالخالق القادری نائب صدر پی ایم ایل (ایف) و امیر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان کی سرپرستی اور صدر نظام مصطفیٰ پارٹی میاں خالد حبیب الہیٰ کی زیرصدارت ڈیرہ میاں سعید وحدت روڈ پر ہوئی۔

جس میں ملک کی 40 دینی و سیاسی جماعتوں کے سربراہ و نمائندے شریک ہوئے، جن میں مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان کے امیر پیر عبدالخالق القادری، بزرگ سنی رہنماء پاکستان فریڈم موومنٹ کے آرگنائزر سید شفیق احمد شاہ توکلی، مسلم لیگ ضیاء کے صدر سابق وزیر اعجاز الحق، سابق وزیر مملکت پیر امین الحسنات، امت واحدہ پاکستان کے چیئرمین علامہ امین شہیدی، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن پی ٹی آئی مشائخ ونگ کے صدر سید حبیب عرفانی، میاں جلیل احمد شرقپوری ایم پی اے، منہاج القرآن علماء کونسل کے ناظم اعلیٰ میر آصف اکبر، ممتاز سماجی شخصیت میاں محمد سعید ڈیرے والے، پیر سید فراز شاہ مشہدی صدر پاکستان فریڈم موومنٹ پنجاب، المصطفےٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے مرکزی رہنما محمد نواز کھرل، جے یو پی کے ناظم اعلیٰ سید صفدر شاہ گیلانی، پاکستان مسلم الائنس کے امان اللہ پراچہ، شیخ الحدیث مفتی محب اللہ نوری، پیر سید رشید احمد شاہ آستانہ عالیہ ٹوبہ قلندر بہاولنگر، مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات سید احسان احمد گیلانی، مرکزی جماعت اہل پنجاب کے امیر پیر سید ارشد حسین گردیزی، ڈاکٹر فرزانہ نذیر مسلم لیگ آزاد کشمیر، لاہور ہائی کورٹ بار، مسلم لیگ جونیجو، لاہور بار اور ختم نبوت الائنس کے نمائندوں نے شرکت کی اور وقف پراپرٹیز ایکٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور کہاکہ اگر فیٹف کے مطالبات کے پیش نظر ترامیم ضروری ہیں تو 1860ء کے ایکٹ میں کر لی جائیں۔

سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ فلسطین اور کشمیر دو ایسے سلگتے مسائل ہیں کہ جو امن عالم کو کسی بھی وقت تباہ کرسکتے ہیں۔ تیسری عالمی جنگ سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق دیا جائے کہ یو این او اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کرا سکی، جس کے نتیجے میں ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نیتن یاہو اور مودی عالمی دہشت گرد قرار دے کر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔ پیر عبدالخالق القادری نے کہا کہ یہود و ہنود کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے، انڈیا کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور صیہونی ریاست اسرائیل مسجد اقصٰی جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے، اسکے تقدس کو پامال کر رہی ہے۔ بے گناہ شہریوں اور بچوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسلم امہ کو ملکر ایک آواز ہو کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

پیر سید حبیب عرفانی نے کہا کہ اوقاف بل پر نظرثانی کے لیے کمیٹی بن گئی ہے، جس میں حکومت کے نمائندے اور علماء و مشائخ شامل ہیں، ان شاء اللہ اچھے طریقے معاملے کو حل کر لیا جائے گا۔ پیر سید فراز شاہ مشہدی نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر یو این او اپنی قراردادیں نہیں لاگو کروا سکتی تو پھر تیسری عالمی جنگ ناگزیر ہو جائے گی۔ کانفرنس کے شرکاء نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا اور مطالبہ کیا کہ اگر یو این او کشمیر اور فلسطین میں امن فوج تعینات نہیں کروا سکتی تو پاکستان کو چاہیئے کہ وہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ہم خیال امن پسند ممالک کا اتحاد قائم کرے اور فوج تشکیل دے، اسرائیل و بھارت کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دے کر اگر وہ کشمیر و فلسطین سے نہیں نکلتے تو ہم خیال ممالک کی تشکیل فوج اتار دے، جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرے، لوگوں کی جان مال عزت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

مسلمان حکمران اگر متحد نہیں ہوتے تو پھر استعماری قوتوں کے ہاتھوں صدام اور قذافی کے انجام کے تیار رہیں۔ وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ء کو مسترد کرتے ہیں، اگر ترامیم ناگزیر ہے تو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ 1869ء کے رجسٹریشن ایکٹ میں ترمیم کی جائے۔ تفریحی مقامات سکول اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہوگئی ہیں، لہٰذا مزارات اولیاء کو بھی زائرین کے لیے کھول دیا جائے۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ اس وقت مساجد، مزارات، دینی ادارے اور رفاعی اداروں کی رجسٹریشن کیلئے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860ء رضاکارانہ ادارہ ہائے معاشرتی بہبود (رجسٹریشن وکنٹرول) 1961 چیرٹی ایکٹ 2018ء اور دی کمپنیز آرڈیننس 2016ء موجود ہیں، لیکن اتنے قوانین کی موجودگی میں وقف پراپرٹیز ایکٹ 1979ء میں ترامیم کرکے مساجد، دینی مدارس، مزارات اور رفاعی اداروں کو چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کے ماتحت کرنے اور انکا کنٹرول سنبھالنے کے لیے FATF کو جواز بنا کر وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020ء منظور کیا گیا، یہ دراصل فیٹف کو جواز بنا کر مساجد، مدارس، مزارات اور رفاہی اداروں کی خود مختاری آزادی ختم کرنے کی ابتدا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button