
دشمن سے وابستہ محمود عباس غرب اردن میں جاری بحران کا حقیقی ذمہ دار
شیعہ نیوز:فلسطینی اتھارٹی نے ہمیشہ دعوی کیا کہ وہ فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتی ہے اور مغربی کنارے میں ان کی حفاظت کرتی ہے، لیکن حالیہ اسرائیلی حملوں کے دوران اس تنظیم کی خیانت کے متعدد پہلو کھل کر سامنے آئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے میں مقاومتی جنگجوؤں کو نشانہ بنانے میں اسرائیل کی مدد کر رہی ہے۔
فلسطینی علاقوں میں قومی اتحاد کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک، خودمختار فلسطینی انتظامیہ کی صہیونی حکومت کے ساتھ سکیورٹی تعاون اور ہم آہنگی ہے، جو طویل عرصے سے نہ صرف فلسطینی عوام پر بوجھ بنی ہوئی ہے بلکہ مزاحمتی تحریک کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔
اکتوبر 2023 میں جب صہیونی حکومت نے غزہ پر وحشیانہ جنگ مسلط کی، بعض حلقوں کو امید تھی کہ صدر محمود عباس عرف ابو مازن کی قیادت میں کام کرنے والی فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے گی۔ تاہم ایسا نہ ہوا بلکہ اس کے برعکس، اس انتظامیہ نے اسرائیل اور امریکا سے مزید قریبی روابط قائم کیے تاکہ غزہ پر مستقبل میں کنٹرول حاصل کرنے کے امکانات کو تقویت دی جاسکے۔
اسی تناظر میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ اس وقت شدید وجودی بحران سے دوچار ہے اور عوامی سطح پر اس کے خلاف نفرت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی فلسطینی اتھارٹی کو ناکام قرار دیتے ہوئے الزام لگاتا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے 21 جنوری 2024 کو، یعنی غزہ میں جنگ بندی کے صرف دو روز بعد، مغربی کنارے کے شمالی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اس کارروائی کے دوران فلسطینی پناہ گزین کیمپوں اور شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔ اقوام متحدہ نے بھی ان حملوں کو غزہ میں اسرائیلی جرائم کے مماثل قرار دیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی بارہا یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ وہ فلسطینی قوم کی نمائندہ ہے اور مغربی کنارے میں ان کے تحفظ کی ضامن ہے۔ تاہم حالیہ اسرائیلی حملوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خودمختار فلسطینی انتظامیہ نہ صرف فلسطینی عوام کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے بلکہ وہ صہیونی حکومت کے ساتھ مل کر مغربی کنارے میں مزاحمتی کارکنوں کو نشانہ بنانے میں بھی ملوث ہے۔
اس رپورٹ میں ہم فلسطین کے امور کے ماہرین کے تجزیوں کی روشنی میں فلسطینی اتھارٹی کو درپیش صورتحال کا جائزہ لیں گے:
1. فلسطینی اتھارٹی کی سب سے بڑی ذمہ داری مغربی کنارے کی تازہ ترین اور بحرانی صورتحال پر ہے۔
2. فلسطینی اتھارٹی اپنے دعووں کے برعکس فلسطینی عوام کے آرمانوں کو حقیقت میں بدلنے میں ناکام رہی ہے اور فلسطینی ریاست کی تشکیل میں ایک بڑا سبب بنی ہے۔
3. فلسطینی اتھارٹی فلسطین میں سیاسی تعطل اور داخلی تقسیم کی ذمہ دار ہے۔
4. فلسطینی اتھارٹی کی قومی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی فلسطینی عوام کو دیگر قومی قوتوں کی طرف مائل کر رہی ہے جو قومی آرمانوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے زیادہ اہل ہیں۔
5. فلسطینی اتھارٹی نے اپنے سیاسی منصوبوں کو اس بنیاد پر چلایا ہے کہ اسے فلسطینی عوام کے بجائے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کی ضرورت ہے۔
6. فلسطینی اتھارٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مغربی کنارے میں اس کا کوئی متبادل نہیں، اس لیے فلسطینی عوام کے شدید عدم اطمینان کے باوجود اس تنظیم کا اندرونی سطح پر اصلاحات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
7. فلسطینی اتھارٹی عملا ایک انتظامی ادارہ بن چکی ہے اور خود کو ایک قومی سیاسی موقف اختیار کرنے کی ذمہ داری نہیں سمجھتی۔
8. فلسطینی اتھارٹی کے پاس اوسلو معاہدے کا کوئی متبادل سیاسی وژن نہیں ہے، حالانکہ اسرائیل نے اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔
9. فلسطینی اتھارٹی سیاسی اور عملی طور پر ختم ہوچکی ہے اور اوسلو معاہدے میں اس کے لیے کوئی سنجیدہ کردار یا پوزیشن نہیں رکھی گئی۔ اس کی اصل ذمہ داری اسرائیل کے ساتھ تعاون اور اس کے مفادات کی حفاظت ہے۔
10. فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ظلم و ستم کے سامنے فلسطینی سیکیورٹی نظام کی ناکامی کی ذمہ دار ہے۔ تنظیم نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور جرائم کے خلاف کوئی سنجیدہ احتجاج یا عملی اقدام نہیں کیا۔
11. صہیونی حکومت کی جانب سے ملنے والی مالی امداد ختم ہونے کے خوف کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے سے گریز کرتی ہے۔
12. مغربی کنارے میں صہیونی فورسز کی مسلسل موجودگی نے عملا فلسطینی اتھارٹی کے کردار کو محدود کر دیا ہے اور اسے صرف ایک شہری ادارے میں تبدیل کردیا ہے جو غرب اردن کے تعلیمی اور صحت کے شعبوں کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، لیکن یہ ادارہ ان ذمہ داریوں کو بھی مؤثر طریقے سے نبھانے سے قاصر ہے اور مکمل طور پر اسرائیل پر منحصر ہے۔
13. جب اسرائیل نے غرب اردن کے شمالی علاقوں کو ایک چھوٹے غزہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی ہے، تو فلسطینی اتھارٹی نے اس جارحیت کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے بلکہ بعض اوقات اسرائیل کی مدد بھی کی، اس لیے یہ اتھارٹی دعوی نہیں کر سکتی کہ وہ غرب اردن پر حکومت کرتی ہے۔
ان معروضی حالات کے پیش نظر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جب تک امریکہ اور یورپ محمود عباس کی تنظیم کی مالی حمایت کرتے رہیں گے، یہ تنظیم برقرار رہے گی حالانکہ حقیقت میں یہ فلسطینی عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
محمود عباس کی تنظیم فلسطین کے اندر کسی بھی سیاسی ڈھانچے کی تشکیل میں ناکام اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ دراصل امریکہ اور اسرائیل وہ قوتیں ہیں جو اس تنظیم کے اندرونی معاملات کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی نے کسی بھی موقع پر واضح حکمت عملی اختیار نہیں کی اور ہمیشہ امریکہ اور عرب ممالک کے دو ریاستی حل کے وعدوں پر انحصار کیا، حالانکہ اسے خود بھی یہ علم ہے کہ اسرائیل کبھی بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے گا۔
اسی وجہ سے کچھ فلسطینی محمود عباس کی اس تنظیم کو اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ بعض کا ماننا ہے کہ یہ تنظیم فلسطینی عوام پر بوجھ ہے اور اس تنظیم کی وجہ سے فلسطینی عوام دشمن کے خلاف یکجہتی سے لڑنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔
م
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں نہ یہ فلسطینی عوام کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی کی مدد سے اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ مستقبل میں اسرائیل کے لیے بھی اس اتھارٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ اس کی کمزوری اور غیر فعال ہونے کی بنا پر اسرائیل نے غرب اردن کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔
آج محمود عباس کی تنظیم غرب اردن میں ایک ایسے ادارے میں تبدیل ہوچکی ہے جو زیادہ تر شہری انتظامیہ کے کام کرتا ہے، اس کا کردار صرف ان اداروں تک محدود ہے اور طویل عرصے تک اس نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا ہے۔