ملائیشیا کی حکومت نے بھی ذاکر نائیک پر پابندی لگا دی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) ذاکر نائیک کی ایک تقریر کے دوران متنازع کلمات پر ملائیشیا کی سات ریاستوں نے ان کے عوامی مقامات پر تقاریر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
واضح رہے کہ ذاکر نائیک پر بھارت میں غداری اور منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم ہیں اور وہ گزشتہ 3 سالوں سے ملائیشیا میں رہائش پذیر ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ایک تقریر کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے جس انہوں نے کہا تھا کہ ملائیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلم اقلیت کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ حقوق حاصل ہیں اور یہ کہ ملائشین چینی وہاں پر مہمان تھے۔
کوالالمپور کے وزیر داخلہ محی الدین یٰسین کے مطابق بھارت کے معروف مبلغ ذاکر نائیک کی جانب سے مبینہ طور پر دیے گئے حساس بیانات پراُن سے تفتیش کی گئی ہے ، ملائیشیا میں نسلی و مذہبی بیانات دینا ایک حساس معاملہ ہے، پولیس نے نسل پرستانہ بیانات کا جائزہ لینے کے بعد اُن پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر داخلہ محی الدین یٰسین نے بتایا کہ پولیس ذاکر نائیک اور متعدد دیگر افراد سے نسل پرستانہ بیان دینے اور ایسی جعلی خبریں پھیلانے کے حوالے سے تفتیش کرے گی جس سے عوامی جذبات متاثر ہوئے۔
اُنہوں نے کہا کہ ملائیشیا میں تقریباً 3 کروڑ 20 لاکھ یعنی 60 فیصد ’مالے‘ قوم سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں جبکہ بقیہ آبادی چینیوں، بھارتیوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت ہندو ہے۔
اِن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں غیر مسلم شہریوں سمیت ہر ایک کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جو کوئی بھی عوامی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بنے گا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کر یں گے۔
مذکورہ تقریر پر ملائیشین پولیس نے ذاکر نائیک سے گزشتہ روز 10گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔
دوسری جانب ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ذاکر نائیک اسلام کی ترویج کے لیے آزاد ہیں لیکن انہیں ملائیشیا کی نسلی سیاست پر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ ذاکر نائیک کو دہشت گردی پر اکسانے کے مقدمات کے باعث بھارت چھوڑنا پڑا تھا اور اُن کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی گئی تھیں۔
ذاکر نائیک سعودی عرب میں کچھ عرصے قیام کے بعد ملائیشیا پہنچے جہاں پچھلی حکومت نے انہیں مستقل شہریت دے دی تھی۔ لیکن اپنے متنازع بیان کے باعث ان کے لئے ملائیشیا میں بھی مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں۔
کئی وزراء نے متنازع کلمات پر ان کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ سات ریاستوں نے ان کے عوامی مقامات پر پابندی عائد کی ہے۔