مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

مالی اعانت کے لئے میں نے 2 بار سعودی عرب کا دورہ کیا، داعشی قاضی

شیعہ نیوز : عراقی عوامی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے ہاتھوں 18 جنوری 2020ء کے روز موصل کے مشرقی علاقے سے اپنے بھائی کے ہمراہ گرفتار ہونے والے داعشی قاضی شفاء النعمہ نے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ سعودی عرب سے مالی اعانت حاصل کیا کرتا تھا۔

عرب ای مجلے العہد کے مطابق داعشی قاضی نے میڈیا پر جاری ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں اپنے ذاتی شدت پسندانہ رجحانات سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ میں سال 2003ء سے قبل بھی شدت پسند تفکرات کا حامل تھا جب میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک ہمسایہ ملک میں گیا اور پھر اس کے بعد ایک شدت پسند گروہ میں رکنیت کے باعث سال 1997ء میں سابق عراقی حکومت کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

گرفتار شدہ داعشی قاضی نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ سال 2006ء میں، جب مسلح جنگجو (دہشت گرد) تیزی کے ساتھ پیشقدمی کر رہے تھے، میں مکہ مکرمہ کے اندر ایک یورپی شہریت کے حامل عرب شہری ’’ابو مصطفی العراقی‘‘ سے ملا جس نے مجھ سے عراق میں موجود مسلح گروپس کے بارے کافی کچھ پوچھا۔ شفاء النعمہ نے کہا کہ اس سفر سے میں نے ’’حفظ قرآن کریم سینٹر‘‘ کھولنے کے لئے بطور کافی رقم جمع کر لی تھی لہٰذا میں نے یہ حفظ قرآن سنٹر کھول کر مسلح گروہوں کی مزید حمایت حاصل کرنا شروع کر دی۔

شفاء النعمہ کا کہنا تھا کہ مالی اعانت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب کے میرے دوسرے سفر کے دوران میری ملاقات ایک عمر رسیدہ سعودی عالم دین سے ہوئی جس سے میں نے مالی اعانت کی درخواست کی اور یوں اس بار بھی میں پُر جیبوں کے ساتھ واپس لوٹا۔ داعشی قاضی نے داعش کی جانب سے نبی خدا حضرت یونس علیہ السلام کے حرم مطہر کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعے تباہ کر دیئے جانے کے بارے میڈیا کو بتایا کہ اس دھماکے کے ایک روز بعد میں نے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے جھوٹ اور خرافات کا سہارا لیا جبکہ داعش کو دراصل اس مقبرے کے نیچے واقع 2000 قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے اشوریہ شاہی سلسلے کے مدفون محل کی تلاش تھی۔

واضح رہے کہ عراقی عوامی مزاحمتی فورسز کے ہاتھوں سال 2017ء میں داعش کے مکمل خاتمے کے بعد عراقی فوج کی جانب سے شہر موصل کے مشرقی علاقے میں واقع حضرت یونسؑ کے مقبرے کے نیچے داعش کی جانب سے کھودی گئی سرنگوں کا جائزہ لیا جا رہا تھا کہ وہاں اشوریہ شاہی سلسلے کے محل "اسرحدون” کی موجودگی کا علم ہوا اور یوں اس مقام کو فوج کی حفاظت میں ملکی محکمۂ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ داعشی دہشت گردوں نے نبی خدا حضرت یونس علیہ السلام کے مقبرے کو مسمار کرنے کے بعد کھودی جانے والی ان سرنگوں کے ذریعے اس قدیم شاہی محل میں موجود انتہائی قیمتی آثار قدیمہ چرا کر شام میں موجود اپنے ٹھکانوں میں منتقل کر لئے تھے جو بعدازاں یورپ و امریکہ پہچا دیئے گئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button