شہید قدس قاسم سلیمانی
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
بانیء انقلاب اسلامی امام خمینی جب ایک کشتِ ویراں میں اپنی فکر کا بیج بو رہے تھے تو کس کے وہم و گماں میں تھا کہ یہ مٹی کبھی زرخیز ہوسکے گی، لیکن چشم فلک نے پھر دیکھا کہ گیارہ فروری انیس سو اناسی کو ایک معجزے کی صورت میں خطہء ایران پر ابر رحمت کا نزول ہوا اور یہ کشت ویراں زرخیز ہوگئی۔ اس کے بعد اس فکر رسا کی تخم ریزی سے اس زمین پر ایسے گلاب اگے، جن کی رہنماء خوشبو فضاٶں کے رستے لمحہِ موجود تک سوچ کی وادیوں کی پیماٸی کر رہی ہے۔ انہی پھولوں میں سے ایک نمایاں پھول شہید قاسم سلیمانی تھا۔
خزاں کے سوداگروں نے یہ سوچا تھا کہ وہ اس پھول کی پتیاں بکھیر کر اپنے مقصد میں کامیاب رہیں گے، لیکن اس پھول کی خوشبو داٸمی بہار کا پیغام لے کر چمن بہ چمن مسلسل سفر میں ہے۔ آج اسلامی جمہوری ایران پہلے سے زیادہ قوی اور توانا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ دفاعی شعبے میں اس کی ترقی حیرت انگیز ہے۔ فضاٸی برتری کو قاٸم رکھنے والی آج کی جدید ٹیکنالوجی کا وہ ماسٹر ہے۔ شہید سلیمانی کو امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا تھا۔ آج ایرانی میزاٸلوں اور ڈرونز نے اسراٸیل اور امریکہ کی نیند حرام کی ہوٸی ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے جو محور مقاومت تشکیل دیا تھا، آج اس کے خوف سے دریاٶں کے دل دہل رہے ہیں اور پہاڑ اس کی ہیبت سے سمٹ کر راٸی ہیں۔
زیر زمین غزہ کی سرنگوں میں جو لہریں پل رہی تھیں، انہیں ”طوفان اقصیٰ“ بنانے میں اہم کردار شہید سلیمانی کا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مھدی مھندس کو 3 جنوری 2020ء کو ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ دونوں راہ کربلا کے مسافر تھے، جو اپنی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔دونوں کا انتقام تمام ملت پر قرض ہے۔ شہید محسن فخری زادہ اور شہید جنرل رضی موسوی کی شہادت کے بعد اس قرض کے بوجھ میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ اس بوجھ کو اب مزید برداشت کرنا ممکن نہیں رہا۔ آخر میں تین جنوری کی مناسبت سے ایک نظم قارٸین کی نذر ہے:-
”انتقامِ سخت“
شبِ سیاہ کی ظلمت گری مٹانے کو
چلے تھے ایک ہی منزل کے جو مسافر دو
مدارِ شمسِ ولایت کے وہ ستارے تھے
وہ اپنی اپنی جگہ روشنی کے دھارے تھے
سب اپنے اور پرائے تھے ان کے دیوانے
زبانِ غیر تک آتے تھے ان کے افسانے
ستیزہ گاہِ جہاں میں وہ نام رکھتے تھے
سپہ گری میں اچھوتا مقام رکھتے تھے
جو بزم میں تھے وہ عکاسِ لہجہء بوذر
تو رزم میں تھے وہ پھر عکس مالکِ اشتر
وہ راستے جو انہیں موت سے ڈراتے تھے
انہیں وہ پاٶں سے پامال کرکے جاتے تھے
انہوں نے فتنہ گروں کے قدم اکھاڑ دیے
فساد کے جو مراکز تھے، سب اجاڑ دیے
جہانِ لعل و گہر میں بس ایک ہی ان کا
کوٸی جو گوہرِ مقصود تھا، شہادت تھا
وہ اپنا گوہرِ مقصود پا گئے آخر
چراغ جو تھا جلانا جلا گئے آخر
جہاں جہاں بھی کہیں رات ہے اندھیرا ہے
جہاں جہاں بھی کہیں ظلمتوں کا ڈیرا ہے
لہو سے ان کے اجالے کا کام لینا ہے
شبِ سیاہ سے یوں انتقام لینا ہے