مشرق وسطی

بحرین میں ساز باز کرنے والی عرب حکومتوں اور غداروں کا اجلاس

شیعہ نیوز:صیہونی حکام نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ، صیہونی حکومت اور چار عرب ممالک پیر کو بحرین میں ملاقات کررہے ہیں ۔
اس رپورٹ کے مطابق منامہ مذاکرات میں متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مراکش جنھوں نے دوہزار بیس سے تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار کئے ہیں اور مصر جس نے انیس سو اناسی سے اس کے ساتھ روابط قائم کر رکھے ہیں ، کی وزارت خارجہ کے حکام اکٹھا ہو رہے ہیں۔
ساز باز کرنے والے ان عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے پہلی بارمارچ کے مہینے میں جنوبی مقبوضہ فلسطین کے صحرائے نقب میں اسی طرح کا اجلاس کیا تھا اور اس ملاقات میں امریکہ کے وزیرخارجہ اینٹونی بلینکن بھی موجود تھے۔
درایں اثنا حزب اللہ لبنان نے امریکہ کی ثالثی میں سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کی برقراری کے امکان سے متعلق خبروں پر ردعمل ظاہر کیا ہے ۔
عبری زبان ذرائع ابلاغ نے ابھی حال ہی میں جوبائیڈن کے دورے سے قبل سعودی عرب کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات کو بحال کرنے کے معاملے کو انجام تک پہنچانے کے لئے صیہونی حکومت کی خفیہ اور مسلسل کوششوں سے پردہ اٹھایا ہے ۔
روسیاالیوم کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ نبیل قاووق نے کہا کہ غیرمتوقع اور حیران کن واقعات اوراستقامت کی طاقت کے مقابلے میں اسرائیل کی دھمکیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور طاقت کے ذریعے ، لبنان کے موقف کو جو حزب اللہ اور قومی فوج کی قوت و صلاحیت پر بھروسہ کرتا ہے ، تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔
نبیل قاووق نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ہر طرح کا اتحاد براہ راست دھمکی اور لبنان کی پیٹھ میں براہ راست خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
بحرین اور صیہونی حکومت کے درمیان ساز باز معاہدے پر تین سال قبل سابق امریکی صدر ٹرمپ کی وساطت سے دستخط ہوئے تھے اور خلیج فارس کے اس چھوٹے سے عرب ملک نے صیہونی حکومت کے ساتھ برسوں کے تعلقات کو عیاں اور اس کا سرکاری طور پر اعلان کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات نے بھی بحرین کے ساتھ ہی ستمبر دوہزار بیس میں واشنگٹن میں ڈونالڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز معاہدے پر دستخط کئے۔ اس کے بعد مغرب اور صیہونی حکومت نے امریکی ثالثی میں دس دسمبر دوہزار بیس کو باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کا سمجھوتہ کرلیا۔
عرب حکام کے اس سازشی رویے اور فلسطینی کاز کے ساتھ ان کی خیانت و غداری کے خلاف ان ملکوں کے عوام اور سیاسی و دینی شخصیات نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے اور اس کی پرزور مذمت کی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button