اسلام تحمل و برداشت،امن و سلامتی کا مذہب ہے؛ علمائے کرام
شیعہ نیوز (پاکستانی خبر رساں ادارہ)۔ راولپنڈی: عید گاہ شریف میں پیر محمد نقیب الرحمٰن صاحب کی زیر صدارت اتحاد امت کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علما اور مشائخ نے کہا ہے کہ اسلام تحمل و برداشت، امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ تفیصلات کے مطابق عیدگاہ شریف میں پیر ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب، پیر محمد نقیب الرحمٰن کی زیر صدارت اتحاد امت کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملک کے نامور علماء جناب علامہ محمد امین شہیدی، ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب ،سیلم صافی صاحب،علامہ عارف واحدی صاحب، ضیاءاللہ شاہ بخاری صاحب اور مولانا طاہر اشرفی نے شرکت کی۔ اس میں علمائے کرام اور مشائخ عظام نے کہا کہ اسلام کی نگاہ میں سب انسان بحیثیت انسان بغیر کسی تفریق و امتیاز کے احترام کے مستحق ہیں اسلام میں عدم برداشت، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا کوئی تصور نہیں ہم سب پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو گلے لگائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلام دشمن طاقتوں سے بڑھ کر اپنے اندر کے اختلافات نے نقصان پہنچایا اور دن بدن ہماری کمزوری کا باعث بن رہے ہین اور دشمن طاقتیں اس کا بھر پور فائدہ اٹھا کر اسلام کی ساخت کو کمزور تر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔اس اجلاس میں موجود تمام علماء و مشائخ کی مشاورت کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایسی شخصیت کے بارے فمیں کمزور بات نہ کی جائے جس کے ساتھ کروڑوں لوگوں کی عقیدتیں وابستہ ہوں۔ بالخصوص وہ شخصیات جن کے احترام کے متعلق نبی پاک ﷺ کے فرامین اور نصوص قطعیہ موجود ہیں جیسا کہ اہل بیت پاک اور صحابہ کرام ان کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے اور کوئی بھی ایسی بات نہ کی جائے جو لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنے جہاں یہ بات خلاف شریعت ہے وہاں وہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہے۔ مشترکہ چیزوں کو تلاش کر کے باہمی اتحاد اور اخوت کو فروغ دیا جائے اور اختلافات کا خاتمہ کیا جائے۔ خفیہ فرقہ پرستی پھیلانے اور کسی بھی انداز میں اس کی معاونت کرنے والے عوامل کی حو صلہ شکنی کی جائے۔ ہنگامی تنازعات کے حل کے لیے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے جو غیر جانبدارانہ طور پر معاملات کو حل کرے اور کسبی بھی مسلک کے اشخاص کو قانون ہاتھ میں لینے کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہےاور اگر کوئی شخص قانون ہاتھ میں لیتا ہے یا کوئی ایسی بات کرتا ہے جو اخلاقیات ، مذہب اور ریاست کے خلاف ہے تو اس بات کو پورے مسلک کی طرف سے نہیں بلکہ اس شخص کا ذاتی اور انفرادی عمل تصور کیا جائے اور اس کے جرم کی مناسبت سے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور عدم اکراہ کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے۔ ہم سب فرقہ ورانہ منافرت ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور جو پیغام پاکستان میں متفقہ اعلامیہ پیش کیا گیا یہ بل کی صورت میں قومی اسمبلی سے منظور کیا جائے اور آئین کا حصہ بنایا جائے۔ یہاں اکھٹے ہونے کا مقصد نفرتوں کا خاتمہ اور محبتوں کو عام کرنا ہے۔