اسرائیل تعلقات کے خلاف ۲۰۰ سے زائد مراکشی علماء، پروفیسرز، اور سیاست دانوں کی جانب سے مزمتی بیانیہ پر دستخط
غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ مراکش کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت میں 200 سے زائد مراکشی علماء، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، وکلاء اور سیاست دانوں نے ایک بیان نامے پر دستخط کیے۔
رپورٹ کے مطابق ، غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ مراکش کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت میں 200 سے زائد مراکشی علماء ، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز ، وکلاء اور سیاست دانوں نے ایک بیان نامے پر دستخط کیے ہیں اور اس بیان نامے پر مزید دستخط کیے جا سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ، ان مراکشی شخصیات نے تعلقات کو معمول پر لائے جانے کی غلطی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امت اسلامیہ کے علمائے کرام صہیونی دشمن کے ساتھ صلح کو متفقہ طور پر پر حرام سمجھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین ہمارے لئے ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہم فلسطین کی آزادی تک ترک نہیں کریں گے۔
اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں بین الاقوامی مسلم یونین کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل شیخ نزیھہ امعاریج ، یونین کے ممبر محمد رفیع اور متبادل تہذیبی تنظیم کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ العتصم بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ جمعرات کے روز مراکشی پادشاہ نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے مسئلہ فلسطین کے دفاع کے لئے مراکشی مستقل عزم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
مراکش کے اس اقدام کے بعد ، ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار مغربی دنیا میں مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کیا۔
مراکش اور اسرائیل کے مابین تعلقات 1993ء میں ایک نچلی سطح پر شروع ہوئے تھے ، لیکن 2002ء میں فلسطینی انتفاضہ کے آغاز کے ساتھ ہی دوبارہ منقطع ہوگئے تھے۔
مراکش پہلا یورپین عرب ملک ہے اور متحدہ عرب امارات ، بحرین اور سوڈان کے بعد یہ فلسطین پر قابض اسرائیلی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے والا چوتھا عرب ملک ہے۔