مشرق وسطی

سعودی درندوں کے ہاتھوں یمن میں مساجد اور ہسپتال بھی محفوظ نہیں

شیعہ نیوز:جارحیت کے دوہزار چھے سو روز کے دوران چھیالیس ہزار تین سو چوہتر افراد نشانہ بنے جن میں سے سترہ ہزار سات سو پچہتر افراد شہید اور اٹھائیس ہزار پانچ سو ننانوے افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اس مرکز نے اس جنگ کے دوران شہید اور زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد کا بھی اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ چار ہزار اٹھائیس بچے شہید اور چار ہزار پانچ سو پچانوے بچے زخمی ہوئے ہیں۔ مرکز کے اعلان کے مطابق ایک ہزار تین سو سات مرد شہید ہوئے ہیں اور اکیس ہزار اکیانوے دیگر زخمی ہوئے ہیں جبکہ اس دوران دو ہزار چار سو چالیس عورتیں شہید اور دو ہزار ایک سو ترانوے زخمی ہوئی ہیں ۔

انسانی حقوق کے مرکز عین الانسانیہ نے اسی طرح اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس جارحیت کے دو ہزار چھبیس سو دن میں سعودی اتحاد نے یمن کے پندرہ ہوائی اڈوں، سولہ بندرگاہوں، تین سو بیالیس بجلی گھروں، چھے سو چودہ مواصلاتی مراکز، دو ہزار ایک سو پچاسی پانی کے ذرائع اور ڈیم، دو ہزار پچانوے سرکاری تنصیبات اور چھے ہزار آٹھ سو ستائیس پلوں اور راستوں کو نشانہ بنایا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران پانچ لاکھ نوے ہزار سات سو ستر مکانات، سولہ سو باسٹھ مساجد، ایک سو بیاسی تعلیمی مراکز، تین سو چھہتر سیاحتی مراکز، چار سو تیرہ اسپتالوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

اس درمیان اطلاعات ہیں کہ سعودی اتحاد کے جنگی طیاروں نے گزشتہ روز یمن کے علاقے حیس و الجراحی پر بمباری کی جس کے نتیجے میں عورتوں اور بچوں سمیت 10 افراد زخمی ہوئے۔

المسیرہ ٹی وی چینل کے مطابق سعودی اتحاد نے ہفتہ کے روز بھی یمن کے مختلف علاقوں من جملہ "مأرب”، "تعز”، "حجه”، "الجوف”، "صعده”، "الضالع” اور "البیضاء” پر راکٹ اور توپخانے سے حملے اور اس صوبے کے اوپر جاسوسی پروازیں انجام دیں۔ اس طرح اس نے گزشتہ چوبیس گھنٹے میں 134 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔

یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہینس گرینڈبرگ نے یمن میں سعودی اتحاد کی طرف سے سیکڑوں بار جنگ بندی کی خلاف ورزی ہونے کے بعد 2 مہینے کی جنگ بندی کی خبر دی تھی۔

سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت اور متحدہ عرب امارات و چند دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کو وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔

یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جارحیت میں دسیوں ہزار افراد شہید و زخمی اور لاکھوں دیگر بے گھر ہو چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button