مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

محرم الحرام کے ساتھ مبارکبادوں کا سلسلہ اور اسلامی سال کی حقیقت

 

کچھ لوگ محرم الحرام کے ساتھ ہی اسلامی سال کے آغاز پر مبارکبادوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں اور کچھ ان مبارکبادوں کی مخالفت۔ لوگوں کی اکثریت معاملات کی اصل کو نہیں جانتی بلکہ اکثر لوگ سائے کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسلامی سال کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہماری اکثریت کو معاشرے میں جو چیز رائج نظر آتی ہے، وہ بغیر کسی تحقیق کے اُسے ہی اسلامی سمجھ بیٹھتی ہے۔ کیا ہجری سال واقعی "اسلامی” ہے۔؟ لوگوں نے بغیر کسی تحقیق کے پہلے سے ہی اس سوال کا جواب ہاں تیار کر رکھا ہے۔ لوگ تحقیق کرنے کے بجائے رسم و رواج اور رائج ہونا دیکھتے ہیں، چنانچہ وہ یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہﷺ نے محرم الحرام کے بجائے ربیع الاوّل میں ہجرت کی تھی۔ انسان کی معلومات کی بنیاد تحقیق و علم پر ہونی چاہیئے۔ اسلامی سال کی مبارکبادیں دینے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن مجید یارسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو ایک مخصوص کیلنڈر اپنانے کا حکم کبھی نہیں دیا۔؟ جب قرآن و سُنت میں ایسا کچھ نہیں تو پھر کسی سال کو اسلامی کہنا کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔؟ کیا اسلامی ہونے کیلئے قرآن و سُنّت میں حکم کا ہونا لازمی نہیں؟ اس معاملے میں لوگوں نے حقیقت کے بجائے سائے کو حق سمجھ رکھا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اور خلیفۂ اول کے دورِ خلافت میں وقت کا حساب اُسی طریقے سے کیا جاتا تھا، جو قریش کے ہاں زمانہ جاہلیّت میں رائج تھا۔ موجوودہ ہجری سال کے مہینے، ان کے نام، ترتیب اور حرمت سب جاہلی عربوں کے نظام کا حصہ تھے، جنہیں قرآن نے بعض اصلاحات کے ساتھ برقرار رکھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب خلیفہ دوّم کے دور میں اسلامی سلطنت پھیلی، تو انتظامی تقاضوں کے پیش نظر ایک انتظامی کیلنڈر مرتب کیا گیا۔ یعنی اس کا حکم قرآن مجید یا سُنّت رسول میں نہیں ہے اور خلیفہ اوّل کے سارے عہد میں اسلامی سال کے نام والی کوئی چیز مسلمانوں میں رائج نہیں تھی۔ خلیفہ دوّم کے زمانے میں ہجری کیلنڈر کا مقصد مسلمانوں کے درمیان نئے اسلامی سال کا عقیدہ اختراع کرنا اور مبارکبادیں دینا نہیں تھا بلکہ یہ نظم و نسق کیلئے ایک طریقہ اپنایا گیا تھا۔ قرآن و سُنّت اور عہدِ نبویؐ سے ہٹ کر جب کسی چیز کا مقصد صرف نظمِ و ضبط ہو تو اسے "اسلامی” بنا دینا ایک فکری مغالطہ ہے۔

اس فکری مغالطے کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ دینی علم وہ ہے، جو وحی پر مبنی ہو اور باقی علوم عقل و مشاہدے پر۔ ہجری کیلنڈر کا تعین چونکہ محض نظم و ضبط کی ضرورت تھا، اس لیے اس کا دینی ہونا تب ہی ممکن ہے، جب قرآن یا سنت اس پر صریح رہنمائی کرے اور واضح حکم دے۔ لیکن ایسا کوئی حکم نہ قرآن میں موجود ہے، نہ رسول اللہﷺ کی زندگی میں۔ قرآن نے عرب معاشرے میں رائج مہینوں کی تعداد، حرمت اور ترتیب کو اسی طرح قبول کیا ہے۔ چار مہینوں کو حرمت دی اور مہینوں کو آگے پیچھے کرنے (نسیء) کو سختی سے منع کیا، تاکہ عبادات اور معاشرتی توازن بگڑ نہ جائے۔ یہ سب خلیفہ دوّم کے عہد میں بھی کچھ عرصے تک جاری رہا۔ اس کے بعد مسلمان اپنے معاملات اس ہجری کیلنڈر سے مرتب کرنے لگے، جس کا آغاز بھی اس مہینے سے نہیں ہوتا، یعنی ربیع الاوّل سے نہیں ہوتا کہ جس میں رسول ؐ نے ہجرت کی تھی۔

یہ خود ایک تضاد ہے، جسے جنتری کے اعتبار سے کوئی شخص حل نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کے ہاں یہ کیلنڈر اسی طرح اس تضاد کے ہمراہ رائج ہوگیا اور لوگوں نے اسے اسلامی کہنا شروع کر دیا۔ کیا کسی چیز کو قرآن و سُنّت سے ہٹ کر صرف اس لیے "اسلامی” کہا جا سکتا ہے کہ اسے مسلمان صدیوں سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔؟ اگر نہیں، تو پھر ہجری کیلنڈر کی حقیقت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیوں نہیں کیا جاتا۔؟ اسلامی تہذیب و تمدّن پر اس عدمِ آگاہی اور لاعلمی کے اثرات کو معمولی نہ لیجئے۔ یہ مبارکبادیں ایک تاریخ تضاد پر پردہ ڈالنے کیلئے ہیں، ورنہ ہر باشعور انسان اس تضاد کو سمجھتا ہے۔ کیا کسی تضاد اور مغالطے کو دینی تقدس کا درجہ دینا یہ دین کے ساتھ نا انصافی اور ظلم نہیں۔؟

اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس مثال پر بھی غور کرنا چاہیئے، جو مولوی عبدالکریم شعیب اور ان کی "786 جنتری” کی ہے۔ یہ ایک جنتری تھی، جو انہوں نے 19ویں صدی کے اواخر میں برما میں جاری کی، جس میں 100 سال بعد مسلمانوں کے عروج کی پیشن گوئی شامل تھی۔ 1998ء میں اس پیشین گوئی کو ایک بودھ بھکشو نے سازش قرار دے کر "786” کو جہادی کوڈ سے تعبیر کیا اور "969” کے کوڈ سے بدھ انتہاء پسند تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس جنتری کا کوئی روحانی یا شرعی جواز نہ تھا، لیکن عوام نے اسے بھی "اسلامی” رنگ دے دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میانمار کے مسلمان آج بھی ظلم و استحصال کا شکار ہیں اور ان کے خلاف یہ جنتری میانمار پر قبضے کی سازش کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

ہم سب کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ جو چیزیں ہمیں فطری، عقیدتی یا مقدس نظر آتی ہیں، ہم ان کے بارے میں تحقیق کریں کہ وہ دراصل کس بنیاد پر استوار ہیں۔ اگر ہجری کیلنڈر کی بنیاد ایک انتظامی فیصلہ تھا، تو اسے لوگوں سے چھپا کر عقیدے کا درجہ تو نہیں دیا جانا چاہیئے۔ کیا ہم ہر ریاستی فیصلہ، جو مسلمانوں کے دورِ عروج میں ہوا ہو، عقیدے کا حصہ بنا لیں۔؟ کسی بھی قوم کا المیّہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں جاہل اکثریت فہیم اقلیت کو خاموش کر دے، اس خاموشی سے عقل، علم، فہم اور شعور کو جذبات، روایت اور شور میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ یاد رکھیئے! سچ کی تلاش وہ سفر ہے، جس میں انسان کو سب سے پہلے اپنے سائے سے نکلنا ہوتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button