مضامین

محرم الحرام، عاشورا، کربلا اور اثرات و کیفیات

محرم الحرام ہر سال ہماری زندگیوں میں آتا ہے، اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے، جس کا احترام دور جاہلیت میں بھی کیا جاتا تھا، اکسٹھ ہجری میں کربلا کے عظیم فاجعہ کے بعد امت مسلمہ بالخصوص جن لوگوں کو کربلا کی عظیم قربانی سے کچھ روشنی ملتی ہے کہ وہ تاریک راہوں میں چلتے ہوئے اس روشنی سے بھٹکنے سے بچ جاتے ہیں، ان کیلئے اکسٹھ ہجری کے محرم و عاشور کے بعد آنے والے ہر محرم پر کیفیات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی یہ ماہ آتے ہیں، کربلا کے تپتے ریگزار پر صبح عاشور سے لیکر عصر عاشور تک دی جانے والی قربانیوں کے نقوش خیالات کی صورت ذہن کے اوراق پر ابھرتے ہیں تو دل مغموم ہو جاتا ہے، جیسے جیسے اس دن کے واقعات کی یادیں آنکھوں کے سامنے یعنی چشم تصور میں آتی ہیں تو مغموم دل کیساتھ آنکھیں تر ہونے لگتی ہیں اور مزید آگے بڑھیں تو انسان بلک بلک کر رونے لگتا ہے، صدائے گریہ بلند ہوتی ہے، اپنے آس پاس، بڑے چھوٹے، مرد و زن، اپنے پرائے کا احساس کیے بنا انسان شہدائے کربلا کی داستانوں کو یاد کرتے ہوئے بے ساختہ ماتم کرنے لگتا ہے، شاید ماتم ہونا بھی ایسے ہی چاہیئے۔۔ بے ساختگی کیساتھ۔

اگر ہم اس ماہ مقدس میں کربلا کے مجاہدین، خانوادہ رسالت کے پروردگان، اصحاب باوفا، عاشقان شہادت و سعادت کے تمام کرداروں کو ایک ایک کرکے زیر بحث لائیں، ان کے کرداروں کا مطالعہ کریں تو ہر ایک بے مثال دکھائی دیتا ہے، ایسے بے مثال جو اپنی مثال آپ تھے، جن میں سے ہر ایک کا کردار جیسے منتخب کرکے دیا گیا ہو اور اس نے اسے توقع سے بڑھ کر نبھایا ہو، ایسی کوئی دوسری مثال سامنے لانا ممکن نہیں کہ امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب باوفا حتیٰ اس کی عمر اسی سال تھی یا چھ ماہ، 13 سال تھی یا 18 سال کی کڑیل جوانی، اس کی ذمہ داری میسرہ کی تھی یا میمنہ کی، وہ جرنیل تھا یا سپاہی، قلب لشکر پہ تھا یا علمدار لشکر، ہر ایک کا کردار ایسا یاد گار ہے کہ ان پر چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی سال بھر مجالس و ذکر کی مجالس و محافل میں تذکرے جاری رہتے ہیں، مگر اس تذکرہ کی چاشنی، جاذبیت، اثر کم نہیں ہوتا، کسی کو بوریت نہیں ہوتی، بلکہ ہر دن اس تذکرہ سے نئی تازگی محسوس ہوتی ہے۔

لہذا یہ تذکرہ، یہ قربانی، یہ ذکر وقت سے ماورا ہے، یہ صدیوں پر حاوی ہے، یہ بھی ایک اہم ترین خوبصورت پہلو ہے کہ یہ تذکرہ اور اس کا اثر جس طرح زمانے سے ماورا ہے، اسی طرح یہ تذکرہ، یہ ذکر سرحدوں سے بھی ماورا ہے، ایک عرب سرزمین پر چودہ صدیاں پہلے ایک واقعہ رونما ہوا، مگر اس نے وقت کی قید سے آزاد ہو کر اپنے اثرات سے ہم پر غلبہ حاصل کیا ہے، ہم اس کے زندہ گواہ ہیں، ہماری کیفیات اس کی زندہ گواہ ہیں، ایسے ہی ہم سے ہزاروں میل دور ایک دوسرے ایریا میں ہونے والے اس واقعہ نے زبان، ثقافت، رسومات، ریاست، حکومت الگ ہونے کے باوجود اپنے سحر میں آج تک جکڑ رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر اس واقعہ کو چھپانے، اس پہ پردہ ڈالنے، اس کی گہرائیوں سے نابلد رکھنے اور اسے حتی متنازعہ بنانے کیلئے کہیں بڑھ کر کام ہوا، مگر اس میں ناکامی ہوئی۔ اس لئے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ہر غیرت مند لفظ یزید سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ اپنے بچوں کا نام نہیں رکھتا بلکہ اگر کوئی بطور گالی بھی کسی کو یزید کہہ دے تو ردعمل شدید ترین ہوتا ہے۔

اس سے واضح ہوا کہ محرم و کربلا جس کے بارے میں مرد حریت و انقلاب امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ "ہمارے پاس جو کچھ ہے، یہ محرم و عاشورا کی بدولت ہے” آج بھی انسانوں کی معراج کا نام ہے، محرم و عاشورا آج بھی عزت و غیرت کے متوالوں کی شان ہے، جس پر وہ فخر کرتے ہیں، محرم و عاشورا بلا شک و شبہ شجاعت و استقامت کی روشن مثال ہے، جس کی روشنی میں انسانیت رشد پاتی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے حق و حقیقت کی بقا ممکن ہوتی ہے۔ محرم و عاشورا بلا شبہ احترام انسانیت، حقوق و فرائض سے آگاہی اور ادائیگی کا نام ہے کہ جن کو ادا کئے بنا معاشرہ مکمل نہیں ہوتا۔ محرم و عاشورا بلا شک و شبہ بیداری و شعور کا دوسرا نام ہے کہ جس کے ذریعے معاشروں میں ترقی، رشد، تقویت، قوانین کی پاسداری اور ایک نظام کے تحت چلنے کی طرف آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

محرم و عاشورا ایثار و قربانی کے روشن چراغوں کی داستان زندہ ہے کہ جن کے جلتے ہوئے تاریکیوں سے نکل کر معاشرے اپنے اصولوں پر قائم رہ پاتے ہیں اور بھٹنے سے محفوظ رہتے ہیں، یہ ایثار و قربانی کے بے مثل نمونوں سے بھرپور ایسی داستان ہے کہ جس کے ہر ورق سے سورج سے بڑھ کر روشنی پھوٹتی ہے، ایسی روشنی جس نے چودہ صدیوں سے یزید اور اس جیسوں کی پھیلائی تاریکی کی سازش کے چہروں سے نقاب الٹنا ہوتا ہے۔ محرم و عاشورا اور کربلا سچائی و صداقت کی ایسی روشن مثال ہے کہ جس نے جھوٹوں، کذب پروردوں، مکاروں، منافقوں اور محسن کشوں کو مقابل پا کر تاریخ کے صفحات پر ملی ان کی کالک کو اپنی نورانیت سے صاف کیا ہے، ورنہ تو انہیں کا راج ہوتا، انہی کو صداقت و سچائی کا درجہ ملتا۔ محرم، عاشورا، کربلا بلا شبہ مزاحمت و مقاومت کا ایسا استعارہ اور روشن راستہ ہے، جس پر چل کر دنیا غاصبوں، ظالموں، فرعونوں، نمرودوں، شدادوں، یزیدوں سے نجات پانے کے نقوش قدم پاتے ہیں اور ان پر چل کر ہی انہیں منزل آزادی مل پاتی ہے۔

اس دور کی آزادی و مزاحمت و استقامت کی تحریکوں میں اگر کربلا کے میدان میں دی گئی قربانیوں کی جھلک ہے تو وہ کامیاب ہیں، انہیں زوال نہیں۔ اگر آج کی تحریکوں میں عاشورائی قربانی و ایثار کا جذبہ ہے تو دنیا کے ظالمین انہیں شکست دینے سے قاصر ہیں، آج کی تحریکوں میں اگر اکسٹھ ہجری کی لازوال داستان شجاعت و استقامت اور ٹکرانے کا جوش و ولولہ ہے تو یزیدان عصر نو ان پر فتح حاصل نہیں کرسکتے، انقلاب اسلامی ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے کربلا، محرم سے روشنی پا کر خطے کی سب سے بڑی ظالم طاقت اور اس کے سرپرستوں کو شکست سے دوچار کیا اور گذشتہ چوالیس برس سے ان کی ناک رگڑ رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں، جب کربلا سے تمسک قائم کرنے والے بیت المقدس کے آزادی کیلئے جانوں پر کھیل جانے والے کربلا کے فرزندان کے ہاتھوں اسرائیل جیسی ناجائز، ظالم ترین طاقت بھی اپنے انجام پر پہنچ جائے گی اور امام حسین ؑ کے فرزند مہدی دوران، حجت آخر کی قیادت و رہبری میں ہم بھی بیت المقدس میں نماز ادا کریں گے۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button