مضامینہفتہ کی اہم خبریں

محرم الحرام کے حوالے سے اہم سوال و جواب(1)

سابقہ تاریخی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ مرکزی اور طاقتور حکومتوں کے مقابل قیام کے لئے مدینہ مناسب جگہ نہیں تھی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)

تحریر و تحقیق: سیدہ ایمن نقوی

سوال1: امام حسین علیہ السلام نے مدینہ میں قیام کا آغاز کیوں نہیں کیا؟
جواب: اس سوال کے جواب کے لئے پمیں اس دور کے زمان و مکان کی شرائط اور حالات کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا۔

از لحاظ زمانی:
امامؑ جب مدینہ میں تشریف فرما تھے تو اس وقت تک مرگ معاویہ کی خبرعام نہیں ہوئی تھی، اس کے علاوہ یہ کہ ابھی لوگوں کی اکثریت معاویہ اور یزید کی حکومت کے درمیان فرق کو اچھی طرح نہیں جانتی تھی، اگرچہ بعض خواص جیسے امام حسینؑ، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمر اور عبدالرحمٰن ابن ابی بکر کی نظروں میں یزید بدکردار، شراب خور، سگ اور بندر باز کے طور پر مشہور تھاـ۔ (1) لیکن معاویہ اور اموی گماشتوں کے پروپیگنڈے اور معاویہ کی طمع بازیوں اور دھمکیوں کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت معاویہ کی زندگی ہی میں یزید کی بیعت کر چکی تھی۔ (2) اور مکانی لحاظ سے بھی مدینہ قیام کے لئے مناسب جگہ نہیں تھی، کیونکہ اولاََ اگرچہ مدینہ والوں کی اکثریت خصوصاً انصار، خاندان اہلبیت سے محبت کرتے تھے لیکن ان کی محبت اس حد تک نہیں تھی کہ وہ ان کے لئے جان بلکہ جان سے کم تر کوئی چیز قربان کریں، جیسا کہ سقیفہ جیسے واقعات سے ان کی اس سستی و کمزوری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ جب حضرت علیؑ نے بیعت توڑنے والوں (جمل والوں) کے مقابلے کے لئے اہل مدینہ سے مدد مانگی، تو اکثر نے مثبت جواب نہیں دیا تھا اور حضرت علیؑ مجبوراً صرف چار سو (3) یا سات سو (4)، افراد کے لشکر کے ساتھ مخالفین کے ہزاروں کے لشکر کے مقابلے کے لئے نکلے۔ دوماََ یہ کہ حضور اکرمؐ کے بعد مدینہ، حکام وقت کی سیاست کی پیروی کرتا تھا اسی وجہ سے سیاست شیخین کی پیروی کی خاطر سنت پیغمبرؐ کے مقابل ان کی سنت کی حفاظت پر زیادہ مصّر نظر آتا تھا، جیسا کہ اس گروہ کے نمائندے عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت علی علیہ السلام کو حکومت حوالے کرنے کی شرط، سیرت شیخین کی پیروی کو قرار دیا، لیکن حضرت علیؑ نے اس شرط کو قبو ل نہ کیا اور حضرت علیؑ جب خلافت پر فائز ہوئے(5) تو اس میں بھی اصلی کردار مدینہ والوں کا نہیں تھا بلکہ دوسرے شہروں خصوصاً کوفہ کے مہاجرین کا حضرت علیؑ کی خلافت پر زیادہ اصرار تھا۔

سوماََ یہ کہ اسی دور میں قریش کے مختلف قبائل خصوصاً بنی امیہ اور ان کے حمایتی مدینہ میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے تھے اور واضح ہے کہ امام حسینؑ کے قیام کے مقابل یہ بھی تیزی سے اقدام کرتے۔

چہارم یہ کہ اس دور میں مدینہ کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ اس کی بنیاد پر کوئی بڑا اور تاریخی قیام شروع کیا جا سکے اور دوسرے بڑے شہروں جیسے کوفہ، بصرہ اور شام کے مقابل مدینہ کی آبادی بہت کم تھی۔

پنچم یہ کہ سابقہ تاریخی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ مرکزی اور طاقتور حکومتوں کے مقابل قیام کے لئے مدینہ مناسب جگہ نہیں تھی، جو قیام بھی اس شہر میں شروع ہوتا اس کی شکست پہلے سے ہی عیاں ہوتی تھی، جیسا کہ سن۶۳ ہجری میں مدینہ والوں نے حکومت یزید کے خلاف قیام کیا ( واقعہ حرّہ) جسے بڑی آسانی کے ساتھ سرکوب کرلیا گیا۔ (6) اسی طرح علویوں کے قیام، جیسے محمد بن عبد اللہ المعروف نفس زکیہ ۔ (7) (سن ۱۴۵ہجری) اور حسین بن علیؑ المعروف شہید فخ کا قیام (8) (سن ۱۵۹ہجری) اہل مدینہ نے معمولی سی مزاحمت کی اور آسانی سے شکست کھا گئے۔

ششم یہ کہ اموی حکومت کے دوران اہل مدینہ یہ بات ثابت کر چکے تھے کہ وہ اموی حکومت کے مقابل اہل بیت کا دفاع کرنے پر تیار نہیں ہیں، کیونکہ معاویہ کی طرف سالہا سال تک اس شہر کے منبروں پر حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم کا سلسلہ چلتا رہا اور اموی حکمران آپ کے بارے بدگوئی کرتے رہے، باوجود اس کے کہ مدینہ والے جانتے تھے کہ یہ سب جھوٹ ہے، لیکن کبھی انہوں نے سختی سے اس سیاست کو رد نہیں کیا، اس سیاست کا زیادہ تر مقا بلہ خو د اہل بیت کے افراد خصوصاً امام حسینؑ کرتے رہے، یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے بھی مدینہ والوں میں سے کوئی شخص کھڑا نہ ہوتا۔ (9) ہفتم یہ کہ اموی حکمران (ولید بن عتبہ) کا شہر پر مکمل کنٹرول تھا اور ایک قیام کے ذریعے ممکن نہیں تھا کہ حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں اور مخالفین شہر پر مسلط ہو جائیں۔

سوال: امام حسینؑ نے حج کیوں نامکمل چھوڑ دیا اور اسوقت مکہ سے کیوں روانہ ہوئے جب مراسم حج شروع ہو رہے تھے؟
جواب: اس سوال کے تاریخی تجزیئے سے پہلے اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے کہ فقہی طور پر یہ کہنا غلط ہے کہ اما م حسینؑ نے اپنا حج نامکمل چھوڑ دیا، کیونکہ امام حسینؑ ۸ ذی الحجہ (یوم الترویہ) کے دن مکہ سے نکلے۔(10) جبکہ حج کے اعمال ۹ ذی الحجہ کے دن مکہ سے احرام باندھ کر عرفات میں وقوف سے شروع ہوتے ہیں، لہٰذا امامؑ اصولاً حج کے اعمال میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے کہ ہم کہہ سکیں آپ نے حج کو نامکمل چھوڑ دیا، ہاں آپ نے مکہ میں ورود کے وقت عمرہ مفردہ انجام دیا تھا اور چونکہ آپ چند ماہ مکہ میں رہے، ممکن ہے آپ نے اس دوران کئی دفعہ عمرہ مفردہ انجام دیا ہو گا، لیکن عمرہ مفردہ کی انجام دہی اعمال حج میں دخول شمار نہیں ہوتی، بعض دیگر روایات میں بھی آپ کے عمرہ مفردہ کے اعمال کی انجام دہی بیان کی گئی ہے۔ (11) تاریخی نکتہ نظر سے یہ سوال بالآخر باقی ہے کہ جب مکہ کے انتخاب کی ایک وجہ یہ تھی کہ اپنے نکتہ نظر کی تبلیغ کے لئے یہاں بڑا اچھا موقع تھا تو پھر کیوں اس وقت مکہ کو چھوڑا کہ جب پوری اسلامی مملکت سے حاجی مکہ، عرفات اور منٰی میں اکٹھے ہو چکے تھے، تو آپ کے لئے تبلیغی طور پر بڑا مناسب موقع تھا، آپ کے اس اچانک فیصلے کے مختلف عوامل خلاصۃََ درج ذیل ہو سکتے ہیں۔

جانی خطرہ کا احتمال:
جب مختلف افراد نے آپ کو مکہ سے نکل کر کوفہ جانے سے روکا تو امام نے جو اُن سب لوگوں کو جوابات دیئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ امام سمجھتے تھے کہ مکہ میں مزید قیام کرنے سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ جیسا کہ ابن عباس کو جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: "مکہ کے علاوہ کہیں اور قتل ہو جانا مجھے مکہ میں قتل ہونے سے زیادہ پسند ہے”۔(12) آپ نے عبداللہ بن زبیر کے جواب میں بھی فرمایا: "خدا کی قسم اگر ایک بالشت مکہ سے باہر قتل کیا جاؤں یہ مجھے زیادہ پسند ہے، بجائے اس کے کہ میں مکہ کے اندر مارا جاؤں، خدا کی قسم اگر میں کسی پرندے کے گھونسلے میں بھی چھپ جاؤں، تب بھی مجھے وہاں سے باہر نکالیں گے تاکہ میں وہ مان جاؤں جو وہ چاہتے ہیں”۔(13) آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے ملاقات میں صاف لفظوں میں فرمایا کہ "یزید حرم امن الٰہی کے اندر میرے قتل کا منصوبہ رکھتا ہے”۔ (14) بالآخر بعض کتابوں میں یہ صاف لکھا ہے کہ یزید نے امام حسین علیہ السلام کو مکہ میں قتل کرنے کے لئے حاجیوں کے روپ میں مسلح افراد بھیج رکھے تھے۔ (15)

حرم کی حرمت کی حفاظت:
سابقہ جواب میں جو عبارات ذکر کی گئی ہیں ان میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے قتل سے حرم امن الٰہی کی حرمت پامال ہو، اگرچہ اس گناہ کا ارتکاب کرنے والے اموی جاسوس ہوں گے”۔ حضرت نے یہ بات عبداللہ بن زبیر سے کہی، جو درحقیقت اسی کی طرف اشارہ تھا کہ ان کے مکہ میں رہ جانے کی وجہ سے یزیدی لشکر کعبہ و حرم کی حرمت توڑ دیں گے، آپ نے عبداللہ بن زبیر کے جواب میں فرمایا،
ان ابی حدظنی ان لہا کبشا بہ تستحل
حرمتھا فما احب ان اکون انا ذلک الکبش
"میرے والد نے مجھے بتلایا کہ مکہ میں مینڈھا ہوگا جس کی وجہ سے اس کی حرمت توڑی جائے گی اور میں نہیں چاہتا کہ میں وہ مینڈھا بنوں”۔ (16)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و ماخذ:
(1) تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۲۲۸
(2) الامامۃ والسیا سۃ، ج۱، ص ۱۶۱۔ ۱۶۴
(3) تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۱
(4) مروج الذھب، ج۲، ص ۳۹۵
(5) تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۱۶۲
(6) الکامل فی التاریخ ،ج۲، ص ۵۹۳
(7) الکامل فی التاریخ، ج۳، ص ۵۶۳۔۵۷۹
(9)تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۴۰۴، ۴۰۵
(10) بحار الانوار، ج۴۴، ص211۔
(11) وقعۃ الطف، ص ۱۴۷
(12) عن الصادقؑ، ان الحسین بن علی خرج یوم الترویۃ الی العراق و کان معتمرا، وسائل الشیعہ ج۱، ص ۲۴۶،کتاب حج باب ۷، ابواب العمرۃ ج ۲اور ۳
(13) ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، ج۸، ص ۱۵۹
(14) وقعۃ الطف، ص ۱۵۲
(15) سید ابن طاؤس، لھوف، ص ۸۲
(15) حوالہ سابق
(16) ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۵۴۶

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button