شیعہ نیوز: ہر ملک و ملت کی شیرازہ بندی کسی مسئول پہ موقوف ہوتی ہے اور جب وہی اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ لے اور جانبدارانہ رویہ اختیار کرنا شروع کر دے تو ملک و قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور وہ قوم جو یکجان ہوتی ہے اور اپنے نفع و نقصان کو ایک نگاہ سے دیکھتی ہے ایک دوسرے پہ انگشت نمائی شروع کر دیتی ہے اور بغض و کینہ ایسے پروان چڑھنے لگتا ہے جیسے بہار میں نئ کونپلیں نکلتی ہیں۔
اس جملہ سے کہ
"شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے”
ایک بات تو سمجھ آتی ہے کہ بالآخر جنگل کا بادشاہ ہے تو جنگل کا قانون بھی ہوگا،جنگل میں رہنے کے آداب بھی ہونگے،جنگل میں ہر جانور کی جان کی حفاظت بھی ہوگی،جنگل میں کمزور و ناتواں کیساتھ عدل و انصاف بھی ہوگا مگر یہی بات جب انسانوں کے معاشرے میں دیکھتے ہیں تو وہ انسان جو کبھی اشرف المخلوقات ٹھہرا،کبھی مسجود ملائکہ بنا تو کبھی اسکی خلقت پہ خود خالق نازاں ہوا ایسی پستی کا شکار ہوا کہ "اولئک کالانعام بل ھم اضل”
"ان کی مثال جانوروں جیسی ہے بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں”
معلوم ہوا انسان کا شرف،اسکی آبرو،اسکی عزت،اسکا وقار اور اور اسکی عظمت کی بلندی عدل و انصاف کی بالا دستی میں مضمر ہے۔
یہ سوال ہم پاکستان کے انسان نما معاشرے کے حیوان صفت حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ جناب عالی،ریاست مدینہ والی،قائد اعظم کے ویژن پہ چلنے والے نام نہاد تابعدار وزیر اعظم صاحب سے پوچھتے ہیں جو کبھی ریاست مدینہ کی بات تو کبھی ملک و قوم کی ترقی کی بات کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ کیا ریاست مدینہ کے اصول و ضوابط یہی تھے جو آج جناب کی حکومت کے ہیں؟
کیا ریاست مدینہ میں لوگوں کی عزتوں کو پائمال کیا جاتا تھا؟
کیا ریاست مدینہ میں تاریکی شب میں لوگوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا تھا؟
کیا ریاست مدینہ میں مجرم کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے غائب کر دیا جاتا تھا؟
کل لائیو کال کا جھانسا دے من پسند کالز سن کر عوامی محبتیں سمیٹنے کی کوشش میں ریاست مدینہ کا حکمران یہ بھول گیا کہ 2 روز سے کراچی میں مائیں بہنیں بیٹھی اپنے پیاروں کی رہائی کا سوال کر رہی ہیں مگر اسکو کیا فکر اسکو تو سب بلیک ملیر نظر آتے ہیں۔
یہ تمام تر سوالات ہم لشکر جھنگوی،سپاہ صحابہ اور نام نہاد داعشی آلہ کاروں سے کیوں پوچھیں کیونکہ یہ تو رہزن ہیں،رہزنوں کا کام ہی یہی ہے ہم تو ریاست مدینہ کے حاکم سے پوچھیں گے۔
تو ادھر ادھر کی نا بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے۔
تحریر: مرتجز حسین