
بھارت کے مسلمان فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہو، جماعت اسلامی ہند
شیعہ نیوز: بھارت کے مسلمانوں نے غزہ اور فلسطین کے نہتے عوام کے حق میں ایک توانا اور دل سے نکلی آواز بلند کی ہے اور قابض اسرائیل کی درندگی، نسل کشی اور دانستہ قحط پھیلانے کی کارروائیوں کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے بھارت کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کا واضح اور بے لاگ ساتھ دے۔
بھارتی مسلمانوں کے نمایاں رہنماؤں اور اسلامی تنظیموں کے قائدین نے نئی دہلی کے انڈین پریس کلب میں ایک اہم پریس کانفرنس منعقد کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے صدر سعادت اللہ حسینی، جماعت اہل حدیث کے سربراہ شیخ علی اصغر امام مہدی سلفی، معروف شیعہ عالم دین شیخ محسن تقوی، آل انڈیا اسلامی مشاورتی کونسل کے سربراہ اور سابق چیئرمین اقلیتی کمیشن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے صدر عبدالحفیظ اور جمعیت علمائے ہند کے نمائندگان بھی موجود تھے۔
جماعت اسلامی ہند کے سربراہ سعادت اللہ حسینی نے حکومت بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے انسانی، اخلاقی اور تاریخی وعدوں کو نبھائے اور کسی بھی شکل میں قابض اسرائیل کی حمایت نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا ماضی فلسطینی کاز کے ساتھ وابستگی سے بھرا ہے، حتیٰ کہ آزادی سے قبل بھی بھارت نے فلسطین کی حمایت کی تھی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اسی اصولی اور ثابت قدم پالیسی کو پھر سے اپنائے۔
یہ بھی پڑھیں : صہیونی فوج کو غزہ میں بھاری شکست؛ حماس نے اپنی عسکری طاقت دوبارہ بحال کرلی
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جو بھارت میں فلسطینی کاز کے سرکردہ حامی سمجھے جاتے ہیں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بین الاقوامی قانون جسے ڈیڑھ سو سال کی کاوشوں کے بعد تشکیل دیا گیا تھا، آج قابض اسرائیل اور اس کے مغربی حامی، خصوصاً امریکہ اور برطانیہ، کے ہاتھوں پامال ہو رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 140 سے زائد ریاستوں نے فلسطین کے ساتھ یکجہتی ظاہر کی ہے اور قابض اسرائیل سے نسل کشی اور جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بنجمن نیتن یاھو اور اس کے دو قریبی ساتھیوں کی گرفتاری کے احکامات بھی دیے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکہ کی اقوام آج فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہاں تک کہ کولمبیا کے صدر نے اپنے ملک میں کسی بھی ایسی کشتی کو داخل ہونے سے روکنے کا حکم دیا ہے جو قابض اسرائیل کی اشیاء لے کر آ رہی ہو۔ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا، جس کی اب تک پندرہ سے زائد ریاستیں حمایت کر چکی ہیں۔ اس کے برعکس صرف چند مغربی ممالک قابض اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، جبکہ وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل کے اقدامات غیر قانونی اور غیر انسانی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بین الاقوامی قانون کو اسی طرح تباہ ہونے دیا گیا تو دنیا ایک جنگل میں تبدیل ہو جائے گی، جہاں طاقتور اقوام کمزور اقوام کی زمین، دولت اور ناموس کو روند ڈالیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم اہل غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں تو درحقیقت ہم اپنے وجود کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ اسرائیل کے حامی بھی یہ مانتے ہیں کہ فلسطینی عوام مظالم کا شکار ہیں، مگر اس کے باوجود وہ اسرائیل کو مالی و عسکری امداد فراہم کرتے ہیں تاکہ نسل کشی جاری رہ سکے۔ ان ملکوں کے پاس طاقت ہے کہ وہ اس درندگی کو روکیں، لیکن وہ قابض اسرائیل کو اسلحہ اور سیاسی تحفظ دے کر نسل کشی کو طول دے رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ تاریخ کی وہ پہلی نسل کشی ہے جو دن رات براہ راست دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہی ہے۔ لوگ کھانے کے پیکٹ لینے کی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ غزہ کے تمام مکینوں کو تنگ علاقوں میں کیمپوں میں دھکیل دیا گیا ہے، اور وہاں بھی انہیں بمباری اور قتل کا سامنا ہے، حالانکہ یہی علاقے اسرائیل نے "محفوظ” قرار دیے تھے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ اگر ایسا ظلم کسی مغربی گاؤں، امریکہ، کینیڈا یا یورپ میں ہوتا تو فوجیں، بحریہ اور فضائیہ حرکت میں آ جاتیں۔ لیکن غزہ کے لیے ان کا طرزِ عمل یکسر مختلف ہے، وہ ظالم کا ساتھ دے رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود اور دنیا بھر کے کروڑوں افراد بھوک اور پیاس برداشت کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ غزہ کے معصوم انسان جان بوجھ کر بھوکے رکھے جا رہے ہیں، انہیں قتل کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ وہ صرف کھانے کے حصول کے لیے صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کا اصل ہدف فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ہے، جو ان کا پرانا خواب ہے۔ اگر سرحدی باڑ کو توڑا گیا تو صہیونی چاہتے ہیں کہ غزہ کے باشندے مصر کی طرف فرار ہو جائیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اسلامی اور عرب ممالک کی خاموشی پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک انسانی احساسات سے بھی محروم ہو چکے ہیں، اسلام کی بات تو دور کی ہے۔ وہ غزہ میں ہونے والے بے مثال مظالم پر محض تماشائی بنے ہوئے ہیں، حالانکہ فلسطین اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کا رکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ ان غفلت شعار حکومتوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔