متحدہ عرب امارات کی علیحدگی کے بعد سعودی عرب کے سامنے آپشن؟
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) جنگ یمن سے متحدہ عرب امارات کی علیحدگی کے بعد سعودی عرب، جنگ اور نا امنی کی دلدل میں اکیلا پڑ گیا ہے اور اس کے سامنے سخت آپشن باقی بچے ہیں ۔
جنگ یمن کے اندازے جاری سال کے آغاز سے تبدیل ہونے لگے تھے۔ انصار اللہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ائیر ڈیفنس سسٹم پر حملے شروع کر دیئے تھے۔ انصار اللہ نے 14 مئی 2019 کو سعودی عرب کی قومی تیل کمپنی آرامکو کے پمپنگ اسٹیشن پر ڈرون حملہ کرکے ریاض کی نیند اڑا دی تھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ یمنی فورس کے حملوں کے مقابلے میں سعودی عرب کے آپشن بہت محدود ہیں ۔
ریاض نے اس حوالے سے متعدد آپشن پیش کئے لیکن ان سے کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ ایسے وقت میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے جنگ یمن سے نکلنے کے اعلان نے سعودی عرب پر دباؤ بہت بڑھا دیا ہے ۔ متحدہ عرب امارات، یمن مخالف اتحاد میں سعودی عرب کا سب سے اہم اتحادی تھا اور اس کے نکلنے کے بعد یمنی سیکورٹی فورس کے حملوں کے جواب میں سعودی عرب کو نئے آپشن تلاش کرنے ہوں گے ۔
پہلا آپشن: علاقائی اور عالمی سیاسی حمایت حاصل کرنا
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر یمنی فورس کے حملے کے بعد اس ملک نے 30 مئی کو تین سربراہی اجلاس منعقد کئے جن میں کئی عرب اور مسلم ممالک نے شرکت کی ۔ ان سربراہی اجلاسوں میں یمنی فورس کی مذمت کی گئی اور سعودی عرب سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا لیکن ان اجلاس کے دس دن کے اندر ہی سعودی عرب کے کئی ہوائی اڈوں کو یمنی فورس نے نشانہ بنایا۔ ریاض نے اقوام متحدہ میں اس کی شکایت کی اور انصار اللہ کو اپنی تیل پائپ لائن میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار قرار دیا ۔ سیکورٹی کونسل نے انصار اللہ کی مذمت کی تاہم اس تحریک نے 14 جون کو ایک بار پھر پانچ ڈرونز سے سعودی عرب کے ابہا اور خمیس المشیط انٹرنیشنل ہوائی اڈوں پر حملے کئے۔
دوسرا آپشن : فوجی حملہ
سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر انصار اللہ کے حملے کے بعد سعودی عرب کی قیادت والے یمن مخالف اتحاد نے انتقامی کاروائی کے طور پر متعدد حملے کئے ۔ اس اتحاد کر ترجمان نے کہا کہ صنعا اور دیگر علاقوں میں انصار اللہ اور دیگر رضاکار گروہوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے گئے ہیں جبکہ حملوں کا نشانہ عام شہری بنے ۔
جنگ یمن کے آغاز کے بعد سے اب تک اس اتحاد نے یمنی قوم کے خلاف تقریبا بیس ہزار فضائی حملے کئے ہیں لیکن وہ یمنی عوام کو شکست نہیں دے سکا۔ بہرحال ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب، یمن کے خلاف زیادہ وسیع حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا لیکن متحدہ عرب امارات کی اس جنگ سےعلیحدگی کے بعد ان کے لئے یہ کام بہت سخت ہو گیا ہے۔
اسی کے ساتھ امریکہ اور یورپ بھی یمن میں فوجی تصادم کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ دوسری جانب یمنی فورس نے اپنے ڈرون اور میزائل حملوں سے سعودی عرب کو سخت انتباہ دیا ہے کہ وسیع حملے کی صورت میں اسے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ سعودی عرب امریکہ کے پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم کے ذریعے یمنی فورس کے میزائلی اور ڈرون حملوں کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
تیسرا آپشن : انصار اللہ کے ساتھ مذاکرات
مئی 2019 میں سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے کے وقت سے ہی، براہ راست مذاکرات، سعودی عرب کے اہم آپشن کے طور پر سامنے آیا۔ سعودی عرب نے اس دوران انصار اللہ سے خفیہ رابطہ بھی کیا اور اس گروہ کے نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ حملے رکوانے کے لئے براہ راست مذاکرات کرنے ریاض آئیں۔ اس نے اسی طرح انصار اللہ کے حملے رکوانے کے لئے عالمی ثالثوں کا بھی سہارا لینے کی کوشش کی لیکن انصار اللہ نے جو شرطیں رکھیں تھیں انہوں نے سعودی عرب کے ہوش اڑا دیئے ۔
سعودی عرب آج جنگ یمن میں پوری طرح سے اکیلا پڑ چکا ہے اور عالمی سطح پر اس کے خلاف تنقیدوں کا انبار لگا ہوا ہے ۔ اسے یمن کے شہریوں کے قتل عام کے لئے پوری طرح ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ۔ اب تک سعودی عرب کا ساتھ دینے والے متحدہ عرب امارات نے فوجی حکمت عملی کے بجائے پر امن حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ فوجی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے اور وہ اپنی کارآمدگی ثابت نہیں کر سکی ہے ۔
البتہ شاید سعودی عرب کے رہنما بھی یمن میں جنگ روکنے کی تجویز پر تبادلہ خیال کرنے پر مجبور ہو جائیں اور امارات کے ہی راستے کو اپنائیں کیونکہ امریکہ میں بھی صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ممکنہ طور پر نیا صدر، ٹرمپ کے مواقف سے بالکل متفق نہ ہو ۔ اس طرح ممکن ہے کہ جنگ یمن میں امریکہ کی حمایت بند ہو جائے جو کسی بھی حالت میں آل سعود کے مفاد میں نہیں ہوگا ۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ سعودی عرب، جنگ یمن سے محفوظ باہر نکل جائے اور اس جنگ کی دلدل میں پوری طرح ڈوبنے سے بچ جائے ۔