مقالہ جات

عالمی دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ

دنیا بھر میں بڑے سے بڑے آدمی سے لیکر چھوٹے تک اخلاقی انحطاط اور چاپلوسی کا دور دورہ ہے۔ ہمارے ملک پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر بھی یہ بیماری نمایاں نظر آتی ہے۔ مجھے آج وائٹ ہاؤس کے مقیم امریکی قوم کے ’’عظیم رہنماء‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے لے پالک بچے صیہونی حکومت کے سربراہ کے درمیان چند دن پہلے ہونیوالی اہم ملاقات پر بات کرنی ہے۔ اس ملاقات میں دونوں اطراف سے دنیا کو برباد کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور عالمی تباہی کے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے ایک دوسرے سے وعدے وعید بھی کیے گئے ہیں۔ امریکی صدر نے اپنی خواہشات کا اظہار بڑے بھونڈے انداز سے کیا اور فلسطین خصوصاً مزاحمتی تحریک کے مسئلے پر اسرائیلی سربراہ سے کہا گیا کہ ناجائز ریاست کیلئے خطرہ حماس کی قیادت کو پہلے تو قتل کرچکے ہو تو اب جو باقی بچ گئے ہیں، ان پر دباو ڈالنے کیلئے حملوں کو تیز کرو۔

اس اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ تقریباً 56 لاکھ آبادی کے ملک فلسطین کو ختم کرکے اس سرزمین کے مالک شہریوں کو ہمسایہ ممالک میں ترقی اور خوشحالی کا خوشنما لالچ دے کر یہاں سے نکالا جائے اور اس جگہ کو ترقی یافتہ تجارتی علاقہ بنا کر اپنے کاروبار کو سمندر کے کنارے شروع کروایا جائے۔ آج سے 77 سال پہلے اس سرزمین انبیاء پر صیہونی ریاست یا حکومت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا، لیکن سامراجی قوتوں یورپی، برطانوی، جرمن اور خصوصاً امریکہ کی سرپرستی میں ایک سازش کے تحت اس خطے پر ایک چھوٹی سی صیہونی مملکت تشکیل دی گئی۔ اس ناجائز اور ظالم ریاست نے امریکہ اور دیگر سامراجی قوتوں کے سہارے1967ء میں عرب ممالک اور اسرائیل کی جنگ میں اپنے رقبے اور مملکت کو وسیع کیا۔ اس میں اردن کے مغربی کنارے، بیت المقدس اور جولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا، جبکہ دوسری طرف مصر کے علاقے صحرائے سینا پر بھی اسرائیلی قبضہ ہو گیا۔

جرات سے عاری عرب بادشاہتوں نے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں پر نہ صرف اس ناجائز ریاست کا قبضہ بلکہ اس مملکت کو بھی سفارتی طور پر تسلیم کر لیا۔ لیکن اہل فلسطین نے اسے تسلیم نہیں کیا اور اپنی مزاحمتی تحریک جاری رکھی۔ ابراہیمی معاہدے کے تحت مختلف عرب ریاستیں یکے بعد دیگرے ناجائز ریاست کو تسلیم کر رہی تھیں، تو ہر طر ف سے مایوسی کے بعد اکتوبر 2023ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حماس نے طوفان الاقصٰی کے نام سے آپریشن شروع کیا، اب تک کی مسلسل جدوجہد اور فلسطینیوں کی جان و مال کی قربانیوں نے مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ جن لوگوں کے دلوں میں کچھ انسانی اقدار باقی ہیں، انہوں نے فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے۔ معاشرے میں اخلاقی انحطاط اور چاپلوسی کا اظہار امریکی صدر اور اسرائیلی رہنماوں کے درمیان وفود کی سطح پر ہونیوالی ملاقات میں نظر آتا ہے۔ ناجائز غاصب ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ کے مظلوموں کے خون سے رنگے ہاتھوں اورلبوں والے امریکی صدر کو نوبل پرائز برائے امن کیلئے نامزد کر دیا۔

میں حیرت زدہ ہوں کہ فلسطین کے تقریباً 60 ہزار شہریوں کو قتل کرنیوالے اور ان کے علاقوں کو مسمار کرنیوالے دہشتگرد کی سرپرستی امریکی صدر کرتا ہے اور اسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کئی مرتبہ حماس کی قیادت نے سیز فائر پر آمادگی کا اظہار کیا، مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جنگ کو جاری رکھنے، مزاحمتی تحریک کو نیست و نابود کرنے اور علاقے خالی کرنے کی تجویز دی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی فلسطین میں انسانی حقوق کی رابطہ کار فرانسیسکا البانیز پر پابندیاں عائد کر دیں کہ اس نے عالمی عدالت انصاف سے اسرائیل اور امریکہ کیخلاف جنگی جرائم کی کارروائی کی تجویز دی تھی۔ جنگ بندی کی کئی قراردادیں امریکہ نے ویٹو کیں۔ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کیخلاف فیصلہ دیا تو اس پر عملدرآمد امریکہ نے نہیں ہونے دیا، یہ ہیں ٹرمپ کے کارنامے، جس پر اسرائیل اس دہشتگرد صفت صدر کو نوبل پرائز کیلئے نامزد کر رہا ہے۔

شرمناک حیرت تو مجھے اپنے ملک کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر پر ہے، جس نے سب سے پہلے ٹرمپ کو نوبل پرائز کیلئے نامزد کیا۔ اب پتہ نہیں اس کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے کہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر تشکیل پانیوالی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے نامزدگی کے بعد صیہونی حکومت نے ٹرمپ کو امن کا مسیحا قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ جب یہ اخلاقی انحطاط کی بات کرتا ہوں تو ڈونلڈ ٹرمپ کے دوست ایلون مسک کا ان دنوں امریکی صدر سے اختلاف چل رہا ہے، اس نے اپنے سابقہ دوست کے کردار پر بھی انگلی اٹھائی ہے اور امکان ہے کہ دیگر کئی لوگوں سمیت ٹرمپ کی بھی ایک نازیبا تصویر بھی جلد منظر عام پر آنیوالی ہے۔ میں یہاں کچھ زیادہ حیرت زدہ نہیں ہوں، کیونکہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا سکینڈل بھی منظرعام پر آیا تھا، جس میں وہ اپنے دفتر میں کام کرنیوالی خوبرو لڑکی مونیکا لیونسکی کیساتھ زیادتی میں ملوث پائے گئے تھے اور تفتیش میں یہ ثابت ہوا کہ بڑی مملکت کے بڑے رہنما کردار کے حوالے سے انتہائی گراوٹ کا شکار ہیں۔

اس لئے ایسے بدکرداروں سے بعید نہیں کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کو اسلحہ کے زور نیست و نابود کرنے کے پروگرام بنائیں۔ کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ صیہونی حکومت نے ایران پر حملہ کرکے ان کے ٹاپ کے جرنیل، سائنسدان، سیاست دانوں اور معصوم شہریوں کو شہید کیا۔ پوری دنیا نے ان واقعات کی مذمت کی۔ پھر امریکہ جیسی بڑی قوت نے بلاوجہ ایران کی جغرافیائی حدود کو پامال کیا کہ وہ حماس کی حمایت کرتا ہے اور اپنے سب سے بڑے جنگی جہاز بی ٹو کے ذریعے حملہ کرکے اپنی غنڈہ گردی اور دہشتگردی کا ثبوت دیا۔ چند دن پہلے دونوں عالمی دہشتگرد رہنماؤں کی وائٹ ہاؤس میں ہونیوالی ملاقات میں حماس اور ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا، لیکن نظام قدرت کچھ اور ہی کر رہا ہے۔

یہ سارا پروگرام لیک ہوگیا۔ ایرانی حکومت نے ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار اپنی فوج اور پاسداران انقلاب کو ہر قسمی اسلحہ تیار رکھنے اور ہائی الرٹ رہنے کا حکم دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل اور امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو ہم اسرائیل کو صفحہ ہستی سے ایسے مٹا دیں گے کہ محسوس ہوگا کہ خطے میں ایسی کوئی صیہونی ریاست اور حکومت کبھی تھی ہی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ کے شہداء کا خون رنگ لائے گا۔ یہ خون رائیگاں نہیں جائیگا، اسرائیل برباد ہوگا۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ رہبر معظم ولی امرالمسلمین سید علی خامنہ ای کی قیادت میں غزہ کے مظلوموں کو ان کا حق ملے اور ناجائز صیہونی ریاست تباہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ دنیا یہ منظر ضرور دیکھے گی، ان شاءاللہ۔
تحریر: سید منیر حسین گیلانی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button