حلقہ NA-246 :: ملت جعفریہ کے سیاسی تدبر کا امتحان
ملک بھر کے شیعہ سماجی اور سیاسی حلقوں میں اس وقت ایک اہم مسئلہ زیر بحث ہےکہ آیا ملت جعفریہ کو کراچی کےحلقہ 246 میں متحدہ قومی مومنٹ کی حمایت کرنی چائیے یا نہیں۔ کیا ایم کیو ایم کے گرفتار کارکنان کی جانب سے درجنوں شیعہ ذاکرین ،ڈاکٹروں، وکلاء ،انجیئنرز اور دیگر شُعبئہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے اعتراف قتل کے بعد کیا متحدہ سے مزید کسی اتحاد کی کو ئی کسر باقی ہے، یہ وہ سوالات ہیں جو انتہائی غور طلب ہیں اور انکے جواب اتنے آسان نہیں ہیں۔حلقہ 246میں ایم کیو ایم کی جانب سے کنور نوید کو بطور امیدوارپیش کیا گیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے امید وارعمران اسماعیل ہیں جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے راشد نسیم نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ وہ تین امیدوار ہیں جن کے درمیان انتخابی جنگ متوقع ہے، عزیز آباد کا یہ حلقہ گزشتہ کئی انتخابات میں ایم کیو ایم کا مظبوط سیاسی حلقہ رہا ہے مگر گزشتہ الیکشن سے پاکستان تحریک انصاف نے تقربیاً 35,000ووٹ لیکر متحدہ کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ کے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا تھا،مگر ایم کیو ایم کے کارکنان کے شیعوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کے حقائق سامنے آنے کے بعد ملت جعفریہ میں ایم کیو ایم نہ صرف غیر مقبول ہوچکی ہے بلکہ شیعہ حلقوں میں متحدہ کی قیادت اور کارکنان کے خلاف نفرت عام ہوچکی ہے ۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائدین ملت جعفریہ کی ناراضگی اور ایم کیوایم کے لئےپائی جانے والی نفرت کو دور کرنے کے لئے شیعہ ذاکرین اور رہنمائوں سے ملاقات کرنے میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ الیکشن میں شیعوں کی مکمل حمایت کے خواہاں بھی ہیں ۔شاید ملت کے کسی بھی فرد کے لئے ایم کیو ایم کو معاف کرنا اتنا آسان نہ ہوگا کیوں
کہ ایم کیو ایم نے ایسے ایسے جید شیعہ معززین کو اپنی فکری بربریت اور جہالت کا نشانہ بنایا ہے جس کے متعلق سوچ کربھی روح کانپ اُٹھتی ہے مثلاً علامہ آفتاب حید رجعفری اورپروفیسر سبط جعفرزیدی کا قتل دو ایسے واقعات ہیں جس سے ملت کا ہر فرد آج بھی آشکبار ہے ۔
ان تمام حقائق کے باوجود ملت جعفریہ کی ایک تنظیم جعفریہ الائنس اور چند بے اثر شیعہ ذاکرین نے ایم کیو ایم کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے ان ذاکرین، تنظیم اور گروہوں نے کس کے کہنے پر یا کس کے دبائو میں اور کس مالی منفعت کے پیش نظر اس سیاسی اتحاد کا اعلان کیاہے یہ موضوع گفتگو نہیں ہے، اس وقت مرکز گفتگو یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ایم کیو ایم نے ملت جعفریہ کو لاشوں کے تحفہ کے علاوہ اور کیا دیا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں مقیم جعفری مسلک سے پیوستہ مسلمانوں میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ اس وقت کی ایک نئی ابھرتی ہوئی شہری سیاسی جماعت ایم کیو ایم کا فرقہ واریت کے خلاف قیام کرنا تھا ۔مگر ایک وقت ایسا آیا جب اس جماعت کے کارکنوں نے تکفیری دھشت گرد تنظیموں کےاشارے پر شیعوں کی نسل کشی کرنے کی ذمہ دار ی اپنے کاندھوں پر اُٹھالی اور سیکڑوں افراد کو دھشت گردی کا نشانہ بنایا،رینجرز کی چھاپہ مارکاروائیوں میں ایسے ایسے سیرئل کلرز بھی پکڑے گئے ہیں جنہوں نے ایک ہی شیعہ خاندان کے کئی کئی افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا، بچوں کو یتیم ،خواتین کو بیوہ ،مائوں کو ان کی اولادوں سے محروم کردیا اس بربریت کے وجوہ میں سب سے اہم سبب تکفیری نظریات ہیں جو ایم کیو ایم میں سرائیت کر چکے ہیں۔ایم کیو ایم کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف ہے جو مہذہب اور تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل جماعت ہے، کچھ شیعہ قائدین پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے طالبان کے حوالے سے ماضی میں دیے جانے والے بیانات کو شیعہ دشمن قرار دیتے ہیں جو تحریک انصاف کا ماضی بن چکا ہے موجودہ تحریک انصاف اپنے ان بیانات کو سیاسی غلطی قرار دیتی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ ان کی اس سیاسی حکمت عملی سے تحریک کو بہت نقصان پہنچا ہے مگر ایم کیو ایم کے مقابلے میں تحریک انصاف نے کسی شیعہ کو قتل تو کرنا درکنا کبھی کوئی دھمکی بھی نہیں دی ہوگئی۔ملت جعفریہ کے خلاف ایم کیو ایم کی جرائم کی ایک فہرست ہے مگر کچھ نادیدہ اور ناسمجھ قوتیں آج بھی ایم کیو ایم کی حمایت میں سوشل میڈیا پر احمقانہ دلائل دے رہے ہیں۔
ان نا سمجھ قوتوں سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کن دلائل کی بنیاد پر شیعوں کی قاتل جماعت ایم کیو ایم کو تحریک انصاف یعنی عمران خان کی قیادت فوقیت دے رہے ہیں؟کیا ایم کیو ایم کی کراچی کے شیعہ خاندانوں کو دی ہوئی لاشوں کے تحائف آپ فراموش کرسکتے ہیں؟ کیا آپ ذاتی مفاد کو ملی مفادات سے افضل تر سمجھتے ہیں؟ کیا آپ اُس تنظیم کی حمایت کرینگے جس کے کارکنان تکفیری طاقتوں کے زیر اثر ہیں؟ ملت جعفریہ کے ہرفرد کو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کا موقف نہیں فراموش کرنا چائیے جو اس کے رہنمائوں نے حوثیوں کی حمایت اور پاکستان کو ایک نئی جنگ سے دور رکھنے کے لئے اختیار کیا تھا۔
ملت کے ہر فر د کو سمجھنا ہوگا کہ یا تو ایک نئی سیاسی جمایت تحریک انصاف کو ووٹ دیں اور اآزمائیں یا پھر اُس ہی ایم کیو ایم کو ووٹ دیں جس کے کارکنان اور رہنمائوں کے ہاتھوں ملت کے شہداء کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔