دنیا

نیتن یاہو نے اسرائیل کو بھرپور شکست کی جانب دھکیل دیا ہے، سابق صیہونی وزیراعظم

شیعہ نیوز: صیہونی کابینہ اور فوج کے خلاف غزہ جنگ میں ناکامیوں پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے سابق وزیراعظم ایہود براک نے کہا ہے: "اسرائیل اس وقت ایک شدید بحران سے روبرو ہے جو ابھی ختم نہیں ہوا اور اسے درپیش خطرناک ترین بحران سمجھا جاتا ہے۔” ایہود براک نے عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار ہارٹز میں اپنے کالم میں لکھا: "7 اکتوبر کا بحران (طوفان الاقصی آپریشن) اسرائیل کی وحشت ناک ترین شکست سے شروع ہوا اور ایسی جنگ ہے جو اب تک جاری ہے۔ یہ اسرائیل کی سب سے بڑی شکست کا شکار جنگ جانی جاتی ہے جس کی وجہ اعلی سطح تک اسٹریٹجک کمزوری اور ناتوانی ہے۔” صیہونی رژیم کے سابق وزیراعظم نے مزید لکھا: "ہم اس وقت غزہ جنگ جاری رکھنے کے مسئلے، شمالی محاذ پر حزب اللہ کی وسیع فوجی کاروائیوں اور ایک وسیع اور چند محاذ پر جنگ کے خطرے سے متعلق بد اور بدتر انتخاب کے مقابلے میں مشکل فیصلے سے روبرو ہیں۔ یہ اسرائیل کیلئے حقیقی معنوں میں ایمرجنسی صورتحال ہے اور ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسرائیل ایک ایسی کابینہ اور ایسے نخست وزیر کے تحت چل رہا ہے جو اس عہدے کیلئے کوئی صلاحیت نہیں رکھتا۔”

غاصب صیہونی رژیم کے سابق وزیراعظم ایہود براک نے مزید لکھا: "وہ جو 7 اکتوبر میں شکست کے ذمہ دار ہیں اور غزہ میں شکست خوردہ جنگ چلا رہے ہیں اسرائیل کے امور سنبھالنے اور اسے نئے مرحلے میں داخل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر اسرائیل کی شکست خوردہ کابینہ اپنے موجودہ حال پر باقی رہتی ہے تو ہم ہم آئندہ چند مہینوں یا ہفتوں میں اسرائیل کے دشمنوں کی جانب سے تیار کردہ "محاذوں میں وحدت” پر مبنی حکمت عملی کا شکار ہو جائیں گے۔ اسرائیل عالمی سطح پر گوشہ نشینی کا شکار ہو چکا ہے اور اپنے واحد اتحادی ملک یعنی امریکہ سے بھی اختلافات کا شکار ہو چکا ہے۔” ایہود براک نے غزہ جنگ کے دوران غاصب صیہونی رژیم کو درپیش دیگر چیلنجز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا: "اس وقت اسرائیل عالمی عدالت انصاف کی جانب سے جاری کردہ احکام کا سامنا کر رہا ہے جبکہ کچھ ممالک نے حتی اسرائیل سے مذاکرات کئے بغیر فلسطین کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔ یہ اسرائیل کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔” سابق صیہونی وزیراعظم نے کہا: "ہم اس وقت یرغمالیوں کو غزہ سے واپس لانے کیلئے فوری معاہدے کے محتاج ہیں چاہے یہ معاہدہ جنگ روک دینے کی قیمت پر ہی انجام کیوں نہ پائے۔”

ایہود براک نے لکھا: "شمالی محاذ پر بڑی تعداد میں آبادکار جلاوطن ہو چکے ہیں جنہیں اپنے گھروں کو واپس بھیجنا ہے۔ اسی طرح اسرائیلی فوج کو اپنی بحالی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے مزید احکامات جاری ہونے کو روکنے اور عالمی سطح پر گوشہ نشینی سے باہر آنے کیلئے بھی اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیل کو چاہئے کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کو "ہاں” کہہ دے جبکہ اتمار بن گویر اور بزالل اسموتریچ کو "نہ” کہہ دے جو نیتن یاہو کابینہ کے انتہاپسند وزیر ہیں۔” غاصب صیہونی رژیم نے صیہونی اخبار ہارٹز میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں مزید لکھا: "جو بھی یہ سوال کر رہا ہے کہ کس طرح وسیع فتح حاصل کرنے سے پہلے جنگ کو روکا جا سکتا ہے؟ وہ جان لے کہ جس قدر جنگ جاری رہے گی مزید یرغمالیوں کی جان خطرے میں پڑتی جائے گی اور وہ تابوت میں واپس آئیں گے۔ وسیع فتح شروع سے ہی ایک کھوکھلا نعرہ تھا اور اس جنگ میں نیتن یاہو کی شکست خوردہ سربراہی نے اسرائیل کو حتمی فتح کی بجائے بھرپور شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button