دنیا

نیتن یاھو کو سابق آرمی چیف سے سخت مقابلے کا سامنا

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اسرائیلی ووٹرز پانچ ماہ میں دوسری بار عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نیتن یاھو نے اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد حکومت سازی میں ناکامی کے بعد ملک میں دوبارہ عام انتخابات کا اعلان کیا تھا۔

انتخابات سے پہلے آخری رائے عامہ کے جائزے میں سامنے آیا ہے کہ نیتن یاھو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کو سابق آرمی سربراہ بینی گینٹز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے ساتھ کانٹے دار مقابلے کا سامنا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کا حکومت سازی میں بہت عمل دخل ہو گا۔

ووٹنگ کے مرحلے کے اختتام اور ایگزٹ پولز کے آنے کے فوراً بعد نئے اتحاد بنانے کے لیے مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔

پچھلی بار کیا ہوا تھا؟

اپریل میں ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی اور بلیو اینڈ وائٹ کو 120 ممبران کے ایوان میں برابر پینتیس پینتیس نشستیں ملی تھیں۔

نیتن یاھو نے اپنی فتح کا اعلان کیا تھا اور امید کی جا رہی تھی کہ وہ جلد دائیں بازو کی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر کنیسٹ میں اکثریت حاصل کر لیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور انھیں پانچ ماہ میں دوبارہ انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔

یروشلم میں بی بی سی کے نامہ نگار ٹام بیٹمین کے مطابق بظاہر تو جھگڑا ایک سیکولر اسرائیل اور اس کے ایک مذہبی اسرائیل کے مابین ہے لیکن نیتن یاھو کے مسائل کی جڑ بدعنوانی اور دھوکہ دہی کے وہ الزامات ہیں جن کا انھیں سامنا ہے۔

نیتن یاھو اپنے خلاف بدعنوانی کےالزامات کی تردید کرتے ہیں اور انھوں نے حکومت میں رہنے کے لیے پارلیمانی استثناء حاصل کرنے کے امکانات کو رد نہیں کیا ہے۔

نیتن یاھو ووٹروں سے کیا کہہ رہےہیں؟

اسرائیل کی تاریخ کے سب سے لمبے عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے نیتن یاہو اس انتخابی مہم میں دائیں بازو کے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوششیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہو گئے تو وہ اسرائیل کی حاکمیت کو وادی اردن اور یہودی بستیوں تک بڑھا دیں گے۔ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ وہ مقبوضہ غرب اردن کا تیس فیصد حصہ اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔

ایسا اقدام دائیں بازو کی جماعتوں میں بہت مقبول ہو گا جن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ کوشاں ہیں۔

فلسطینی اس اقدام کے سخت مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ غرب اردن کا تمام علاقہ ایک دن ان کی ریاست کا حصہ ہو۔

نیتن یاھو کے اس اعلان کی دنیا بھر میں بھی مذمت کی گئی ہے۔ فلسطین کی قیادت نے اسے ایک ایسا جنگی جرم قرار دیا ہے جس کے سرزد ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔

نیتن یاھو نے اپنے اس وعدے کا بھی ایک بار پھر اعادہ کیا کہ وہ غرب اردن کے علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کو اسرائیل میں شریک کر لیں گے۔ عالمی قوانین کے تحت غرب اردن میں یہودی آبادیاں غیر قانونی ہیں۔ اسرائیل اس سے اتفاق نہیں کرتا۔

نیتن یاھو نے عبرانی اخبار ماریو میں لکھا: ’ہم یہودی لوگ تاریخی تبدیلی کے بالکل قریب ہیں۔ میں اسرائیل کی سرحدوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ ترین بنانے کے لیے آپ کا اعتماد چاہ رہا ہوں۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی انتخابات کے اختتام کے فوراً بعد اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین امن معاہدے کے منصوبے کا اعلان کریں گے۔

بینی گینٹز کیا وعدے کر رہے ہیں؟

نیتن یاھو کا مقابلہ سابق جرنیلوں سے ہے جو کہہ رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر سیاسی فوائد کے لیے معاشرے کو تقسیم نہیں کریں گے۔

سابق فوجی سربراہ بینی گینٹز اور سابق وزیر خزانہ یائر لیپڈ نے رواں برس فروری میں بلیو اینڈ وائٹ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس نے اپنے پہلے ہی انتخابات میں حکمران جماعت لیکوڈ پارٹی جتنی 35 نشستیں حاصل کیں۔

بینی گینٹز نے عبرانی اخبار ماریو میں چھپنے والے مضمون میں لکھا کہ ان کی فتح اسرائیلی جمہوریت کا رخ بدل دے گی۔

انھوں نے لکھا کہ وہ حکومت میں رہنے کے لیے معاشرے کو منقسم کرنے کے لیے لوگوں میں اشتعال پیدا کرنے کی پالیسی کا خاتمہ کریں گے اور وہ ایک ایسی اکثریتی حکومت بنائیں گے جس میں مخصوص گروہوں کو اپنے مفادات آگے بڑھانے کی اجازت نہیں ہو گی اور وہ ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھیں گے جو اسرائیل کی اکثریت کا خیال رکھے گی۔

یہ واضح نہیں ہے کہ بینی گینٹز کی مقبوضہ غرب اردن کے 30 فیصد حصے اور یہودی آبادیوں کو اسرائیل میں شریک کرنے کے حوالے سے کیا پالیسی ہے۔

انھوں نے یہ بھی نہیں واضح کیا کہ کیا وہ فلسطینی ریاست کے خیال کے حامی ہیں یا مخالف ۔ البتہ وہ غرب اردن کے علاقے سے اسرائیلی انخلا کے حق میں نہیں ہیں۔

اقتدار کی کنجی چھوٹی جماعتوں کے ہاتھ میں کیوں؟

تازہ انتخابی جائزوں کے مطابق کسی بھی جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہے۔

تیس سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں لیکن ان میں ایک تہائی ایسی ہیں جو پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے تین اعشاریہ دو فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط پر پورا اُترنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔

انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل ایوگڈور لائبرمین ایک بار پھر حکومت سازی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ایوگڈور لائیبرمین ایک وقت نیتن یاھو کے اتحادی تھے لیکن اب ان کے حریف بن چکے ہیں۔

ایوگڈور لائبرمین نے اپریل میں انتخابات کے بعد نیتن یاھو کی حکومت سازی کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا ۔ ان کا مذہبی جماعتوں کے ساتھ قدامت پسند یہودیوں کو ملٹری سروس سے استثنیٰ کا پرانا جھگڑا ہے۔

لائیبرمین نے کہا ہے کہ وہ اسی صورت میں نیتن یاھو کو دوبارہ وزیر اعظم بننےمیں مدد کریں گے اگر وہ ایک سیکیولر مخلوط حکومت بناتے ہیں اور بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو اقتدار میں شریک کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نیتن یاھو نے اس امکان کو سرے سے رد کیا ہے۔

انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد کیا ہو گا؟

صدرِ اسرائیل ریوون ریولن اس سیاسی جماعت کے لیڈر کو حکومت سازی کی دعوت دیں گے جس کو 120 کے ایوان میں کم از کم 60 ممبران کی حمایت حاصل ہو گی۔

حکومت کی دعوت حاصل کرنے والے لیڈر کو 28 روز کےاندر اپنی اکثریت ثابت کرنی ہو گی۔ اٹھائیس روز کی مدت میں دو ہفتے کا اضافہ بھی ممکن ہے۔

اپریل میں ہونے والے انتخابات میں نیتن یاھو کو حکومت سازی کی دعوت دی گئی لیکن وہ مقررہ وقت میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ وزیر اعظم نیتن یاھو نے نئے انتخابات کی کوشش کی جس کی ایوان کی اکثریت نے حمایت کی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button