
نیتن یاھو کی بدنیتی نے قیدیوں کی رہائی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں، حماس
شیعہ نیوز: اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے واضح کیا ہے کہ قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی حالیہ بےحسی اور بدنیتی پر مبنی بیانات اس کی اصل نیتوں کا آئینہ دار ہیں، جس کے تحت وہ دانستہ طور پر قیدیوں کے تبادلے کے کسی ممکنہ معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، تاکہ نہ صرف فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو روکا جا سکے بلکہ غزہ پر مسلط کردہ ظلم و ستم کے طوفان کو بھی جاری رکھا جا سکے۔
ایک تحریری بیان میں حماس نے کہا کہ اس نے ایک متوازن اور جامع معاہدے کی تجویز پہلے ہی پیش کی تھی، جس کے تحت تمام قیدیوں کو بیک وقت رہا کیا جانا تھا۔ اس کے بدلے قابض اسرائیل کی فوج کو مکمل انخلا کرنا تھا، بمباری کو مستقل طور پر روکا جانا تھا اور انسان دوست امداد کو بلا رکاوٹ پہنچنے کی اجازت دی جانی تھی لیکن بنجمن نیتن یاھو نے اس اہم پیشکش کو مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ جنگ کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں بلکہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی، تباہی اور انسانی بحران کو طول دینا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ایک جنگی مجرم امریکی صدر کو امن کے نوبل انعام کےلئے نامزد کر رہا ہے! جوزپ بورل
حماس نے مزید کہا کہ وہ اب بھی ایک ذمہ دار اور سنجیدہ فریق کے طور پر مذاکرات میں شامل ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ایسا معاہدہ ہو جائے جس کے ذریعے بمباری رکے، قابض اسرائیل کا فوجی انخلا ممکن ہو، امداد آزادانہ داخل ہو اور فلسطینی عوام کو تعمیر نو کے مواقع میسر آئیں تاکہ وہ عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اس کے بدلے قیدیوں کے باہمی تبادلے پر آمادگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
اس تناظر میں اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بنجمن نیتن یاھو نے قیدیوں کے اہل خانہ کو آگاہ کیا ہے کہ اگر حماس کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی پر اتفاق ہو جاتا ہے تو تب جا کر جنگ بندی کے اختتام پر مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔
دوسری جانب اسرائیلی نشریاتی ادارے نے تصدیق کی ہے کہ بنجمن نیتن یاھو نے قیدیوں کے اہل خانہ کو بتایا کہ کسی بھی معاہدے کی صورت میں قیدیوں کے نام حماس کی طرف سے طے کیے جائیں گے۔
اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ جاننے کا مطالبہ کیا ہے کہ آخر فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہو گا کہ کن افراد کو رہا کیا جائے گا۔
حماس نے اپنی پالیسی ایک بار پھر دنیا کے سامنے رکھ دی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی آزادی، عزت اور بقاء کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹانے کو تیار ہے، جبکہ قابض اسرائیل کی قیادت صرف خون، تباہی اور نسل کشی کی سیاست پر گامزن ہے۔