حماس کے بغیرکوئی فارمولا قبول نہیں، عالم اسلام اٹھ کھڑا ہو، اسماعیل ھنیہ
شیعہ نیوز: اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کل بدھ کی شام کہا ہے کہ حماس اور مزاحمتی دھڑوں کے بغیر غزہ میں کوئی بھی انتظامی منصوبہ ایک سراب اور دھوکہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں حماس ایسے کسی بھی پلان کے لیے تیار ہوگی جس کا مقصد غزہ پر جارحیت روکنا ہوگا۔
اسماعیل ہنیہ نے فلسطینی انفارمیشن سینٹر کے زیر نگرانی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں کہا کہ "ہمارے لوگ اور ہماری مزاحمت اب بھی جدوجہد اور ثابت قدمی کی روشن تصویر پیش کرتی ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ’’طوفان اقصیٰ ‘‘‘قابض دشمن کے لیے ایک زبردست دھچکا ہے جس نے اس کے وجود اور اس کی عسکری اور سیاسی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا”۔
اس نے عظیم استقامت اور مزاحمت نے ایسے تعاملات کو جنم دیا جنہوں نےنام نہاد صہیونی ریاست کے مستقبل اور دشمن کے اتحاد کو داؤ پر لگا دیا۔
یہ بھی پڑھیں : غزہ 66 دن سے ظلم کی تاریکی کا شکار، ایسی نسل کشی کبھی انسانیت نے نہیں دیکھی، علامہ ساجد نقوی
انہوں نے کہا کہ القسام بریگیڈز اور مزاحمت کی بہادری واضح ہے اور دشمن کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ آخری حملہ شجاعیہ اور جبالیہ میں ہوا جس میں دشمن کو اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانا پڑیں۔
اسماعیل ہنیہ نے زور دے کر کہا کہ تمام مصائب ہماری یادوں میں کندہ رہیں گے اور انہیں بھلایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کے مرتکب افراد کو برداشت کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے لوگوں کے لیے ریلیف کی رفتار تیز کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں سمیت سب کے ساتھ مل کر بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’فلسطینی عوام جہاں بھی موجود ہیں، قابض ریاست کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور رہیں گے‘‘۔
انہوں نےعرب ممالک اور مسلمان ملکوں کے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے پیمانے کے تناسب سے اپنے رد عمل کا دائرہ وسیع کریں۔
ہنیہ نے دنیا کے مختلف شہروں اور دارالحکومتوں میں فلسطین اور اس کے عوام کی حمایت میں عوامی اور بین الاقوامی احتجاجی تحریک کو سراہا۔
انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ وحشیانہ جارحیت ختم ہو جائے گی اور مزاحمت ایک وفادار محافظ رہے گی‘‘۔
دوسری جانب ھنیہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے بھاری اکثریت سے جنگ بندی کے لیے جاری کردہ قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بیانات کو سراہتے ہوئے سلامتی کونسل میں ان کے پیغام کو سراہا۔