اہم پاکستانی خبریںہفتہ کی اہم خبریں

پاکستان اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتا” ؟مشاہد حسین سید

شیعہ نیوز: سینیٹر مشاہد حسین سید نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا کیونکہ پاکستان سامراجیت، استعمار، نوآبادیاتی نظام اور ظلم کے خلاف نظریاتی مؤقف رکھتا ہے، پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے ساتھ ان کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان فلسطین پر قابض صہیونی ریاست اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا اور یہ اسٹیٹ پالیسی ہے جس میں کسی تبدیلی گنجائش نہیں ہے۔

ترکی کے شہر استبول میں "پاکستان اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتا” کے عنوان سے منعقد کردہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ برائے امور خارجہ کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سید نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ اور مسیحی برادری کو کرسمس کی مبارکباد دی۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ صرف مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام سے جڑاہوا نہیں ہے، بلکہ یہ پوری دنیامیں انصاف اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت انسانی حقوق کے مسائل اور حق خود ارادیت سے بھی جڑا ہوا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ فلسطین کی حمایت دراصل بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں کے عین مطابق ہے جو پاکستان کی اسٹیٹ پالیسی کا سب سے اہم جز ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بابائے قوم کا موقف بالکل واضح تھا، قائداعظم نے کہا تھا کہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنانا چاہئیے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہئے تاکہ اس کے حل کیلئے کوششیں تیز کی جاسکیں۔
انھوں نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے فلسطین کے حوالے مؤقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان مظلوم فلسطینیوں کی اس وقت سے حمایت کررہا ہے جب پاکستان وجود میں بھی نہیں آیا تھا، پاکستان کے قیام سے قبل 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے دو قراردادوں کو متفقہ طور پر منظو رکیا تھا جس میں سے ایک تو پاکستان کے قیام کیلئے تھی جبکہ دوسری فلسطینیوں کی حق خوداردیت کیلئے تھی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا فلسطینیوں کے ساتھ کتنا گہرا رشتہ ہے، اس سے قبل بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938 میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کیلئے پہلی مرتبہ یوم یکجہتی فلسطین اور فلسطین فنڈ کا آغاز کیا تھا۔

انکا کہنا تھا کہ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کی فلسطین کے ساتھ طویل اور دیرینہ وابستگی ہے جبکہ 26 اگست 1948 اپنی وفات سے 8 روز سے پہلے قائد اعظم نے جو پیغام دیا دیا وہ فلسطین کے حوالے سے ہی تھا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بابائے قوم کے نذدیک مسئلہ فلسطین کس قدر اہمیت رکھتا تھا۔ انھوں نے پاکستان کی مظلوم ممالک کے ساتھ یکجہتی اور ان کے حق خود ارادیت کے حوالے سے تاریخی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1992 میں اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف نے بوسنیا کے حوالے سے جراتمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کو وہ پہلا ملک ہونے کا اعزاز دلایا جس نے بوسنیاکی سب سے پہلے مدد کی تھی۔

انکا کہنا تھا کہ پاکستان کے بعد ترکی، سعودی عرب اور ایران نے بوسنیا کو سپورٹ کیا، لیکن پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے کھل کر بوسنیا کی امداد کی، جبکہ دیکھا جائے تو یہاں پاکستان کا کوئی معاشی اور سرحدی فائدہ نہیں تھا، لیکن یہ وہی پالیسی تھی جس کو قائد اعطم محمد علی جناح نے ہمیں دی تھی اور یہی کچھ 1998 میں بھی دیکھا گیا جب ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے امریکا نے پاکستان کو 5 بلین ڈالر ز کا لالچ دیا تھا، لیکن پاکستان نے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان نے ظلم کے خلاف کسی طاقت اور کسی لالچ کو قبول نہیں کیا۔

انھوں نے 1950 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1950میں پاکستان ایک نوزائدہ ملک تھا جس کے معاشی حالات آئیڈیل نہیں تھے لیکن اس وقت الجیریا کے وہ عہدار جو استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ڈپلومیٹک پاسپورٹ پر پاکستان آئے اور پاکستان نے انھیں بھرپور سپورٹ کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہم صیہونی ریاست اسرائیل ہی نہیں ہر اس طاقت کے خلاف ہیں جو کسی بھی قوم کا حق خود ارادیت کو دبانے کی کوشش کرے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بعض دوست خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کیلئے پاکستان پر دوست عرب ممالک کا دباؤ ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری طاقتوں نے واضح طورپر بتادیا ہے کہ اس حوالے سے بات بھی فضول ہے پاکستان کسی بھی غاضب کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

انکا کہنا تھا کہ یہ بابائے قوم کا وہ اصول ہے، جس پر پاکستان کی پالیسیز غیر متزلزل ہے، ہم کشمیر اور فلسطین پر اگر سمجھوتہ کرلیں تو ہمیں معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں تاہم پاکستان نظریات پر سودے بازی نہیں کرسکتا۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسز کو صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر اور فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں دو چیزیں دونوں میں مشترک ہیں، کشمیر میں بھارتی وزیر اعظم مودی کا ہندوتوا کے نام پر نظریاتی ایجنڈا ہے جس کو وہ کشمیریوں پر لاگو کرکے مظالم ڈھارہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو صہیونیت کے نظریاتی ایجنڈے پر نہتے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور یہ دونوں ہی اقوام متحدہ کی قرارد ادوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مودی نے کشمیر یوں کو حق خودارادیت سے محروم کرنے کیلئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کا طویل ترین لاک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا نیتن یاہو جغرافیائی تبدیلی کیلئے کررہے ہیں، اسرائیلی حکومت دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں بسارہی ہے ہی فارمولہ مودی نے اپنایا ہے اور بھارت بھر سے ہندوؤں کو کشمیر میں لاکر آباد کیا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کی تعداد کو اکثریت سے اقلیت میں بدل کر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کیئے جاسکیں۔ انھوں نے کہا کہ یہاں میں فلسطینیوں کے ساتھ پاکستان کے گہرے تعلق کا حوالہ دینا چاہوں گا، 1967 اور 1973 عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان وہ واحد غیر عرب ملک تھا جس نے اس جنگ میں فلسطینیوں کی مدد کی اور پاکستان کے کیپٹن سیف الاسلام نے اسرائیل کے چار طیاروں کو تباہ کیا اور یہ ملک کی پالیسی تھی، جس میں ہم نے اسرائیل کے لڑاکا طیاروں کو تباہ کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button